صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
7. بَابُ إِذَا قَالَ رَجُلٌ لِعَبْدِهِ هُوَ لِلَّهِ. وَنَوَى الْعِتْقَ، وَالإِشْهَادُ فِي الْعِتْقِ:
باب: ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے (تو وہ آزاد ہو گیا) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ (ضروری ہیں)۔
حدیث نمبر: 2530
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ لَمَّا أَقْبَلَ يُرِيدُ الْإِسْلَامَ وَمَعَهُ غُلَامُهُ ضَلَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، فَأَقْبَلَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، هَذَا غُلَامُكَ قَدْ أَتَاكَ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُ حُرٌّ، قَالَ: فَهُوَ حِينَ يَقُولُ: يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نَجَّتِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن بشر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے (مدینہ کے لیے) نکلے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ (راستے میں) وہ دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ پھر جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (مدینہ پہنچنے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کا غلام بھی اچانک آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوہریرہ! یہ لو تمہارا غلام بھی آ گیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام اب آزاد ہے۔ راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ پہنچ کر یہ شعر کہے تھے۔ ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات، پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2530  
2530. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہونے کے ارادے سے مدینہ طیبہ آئے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، لیکن راستے میں بھول کر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ پھر وہ غلام اس وقت واپس آیا جب حضرت ابوہریرۃ ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے ابوہریرہ ؓ!یہ تیرا غلام حاضر ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام آج سے آزاد ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس وقت ابوہریرہ ؓ یہ شعر پڑھ رہے تھے: [صحيح بخاري، حديث نمبر:2530]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ آزادی کے لیے گواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر امام بخاری ؒ نے اس کو اس لیے بیان کیا کہ باب کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کو گواہ کرکے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا۔
بعضوں نے کہا امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ غلام کو یوں کہنا وہ اللہ کا ہے اس وقت آزاد ہوگا جب کہنے والے کی نیت آزاد کرنے کی ہو اگر کچھ اور مطلب مراد رکھے تو وہ آزاد نہ ہوگا۔
آزاد کرنے کے لیے بعض الفاظ تو صریح ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہے یا میں نے تجھ کو آزادکردیا۔
بعضے کنایہ ہیں جیسے وہ اللہ کا ہے یعنی اب میری ملک اس پر نہیں رہی، وہ اللہ کی ملک ہوگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2530