سنن نسائي
كتاب الأيمان والنذور -- ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
29. بَابُ : الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ
باب: نذر پوری کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3840
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي جَمْرَةَ , عَنْ زَهْدَمٍ , قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يَذْكُرُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَيْرُكُمْ قَرْنِي , ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ , ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ , ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ" , فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ مَرَّتَيْنِ بَعْدَهُ أَوْ ثَلَاثًا , ثُمَّ ذَكَرَ:" قَوْمًا يَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ , وَيَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ , وَيُنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ , وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ أَبُو جَمْرَةَ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے زیادہ اچھے اور بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «ثم الذين يلونهم» کا ذکر دو بار کیا یا تین بار، پھر آپ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو خیانت کریں گے اور انہیں امین (امانت دار) نہیں سمجھا جائے گا، گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی نہیں مانگی جائے گی اور نذر مانیں گے اور اسے پورا نہیں کریں گے اور ان لوگوں میں موٹاپا ظاہر ہو گا ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ ابوجمرہ نصر بن عمران ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشہادات 9 (2651)، وفضائل الصحابة 1 (3650)، الرقاق 7 (6428)، الأیمان 7 (6695)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 52 (2535)، (تحفة الأشراف: 10827)، سنن ابی داود/السنة 10 (4657)، سنن الترمذی/الفتن 45 (2223)، والشہادات 4 (2302)، مسند احمد (4/426، 427، 436) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ جواب دہی کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، عیش و آرام کے عادی ہو جائیں گے اور دین و ایمان کی فکر جاتی رہے گی جو ان کے مٹاپے کا سبب ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3840  
´نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے زیادہ اچھے اور بہتر لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد کے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «ثم الذين يلونهم» کا ذکر دو بار کیا یا تین بار، پھر آپ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو خیانت کریں گے اور انہیں امین (امانت دار) نہیں سمجھا جائے گا، گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی نہیں مانگی ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3840]
اردو حاشہ:
(1) میرے دور کے یعنی صحابئہ کرامؓ امت میں سب سے افضل ہیں اور یہ بات متفق علیہ ہے کیونکہ انہیں براہ راست نبوی فیضان حاصل ہوا ہے ان کے بعد سے مراد تابعین اور ان کے بعد سے مراد تبع تابعین ہیں۔ یہ دولفظ ہی صحیح ہیں۔ کیونکہ یہ تن دور ہی مشہور بالخیر ہیں۔ ویسے بھی راوی کو تیسری دفعہ کے بارے میں شک ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ صحیح نہیں۔ اگر بالفرض تین دفعہ یہ لفظ ہوں تو آپ کے دور سے مراد صرف آپ کی حیات طیبہ تک کا دور ہوگا اور ان کے بعد سے مراد صحابہ ہوں گے جو آپ کے بعد زندہ رہے۔ صحابہؓ کا دور 110ھ  تک رہا ہے۔ دوسرے سے مراد تابعین اور تیسرے سے مراد تبع تابعین ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
(2) گواہیاں دیں گے یعنی جھوٹی‘ تبھی تو ان سے گواہی نہیں لی جائے گی اور اگر زبردستی دیں گے تو مانی نہیں جائے گی۔
(3) موٹاپا عام ہوجائے گا یعنی اکثر لوگ موٹے ہوں گے اور موٹا ہونے کو پسند کریں گے بلکہ موٹا ہونے کی کوشش کریں گے‘ یعنی عیش پرست ہوں گے۔ سہل پسند ہوں گے۔ کھانے پینے اور سونے پر خوب زور دیں گے۔ پست ہمت ہوں گے۔ غرض ناکارہ بن جائیں گے کیونکہ موٹاپے کو یہ سب چیزیں لازم ہیں۔ آپ کا مقصود بھی یہی چیز بتانا ہے کہ نہ صرف موٹاپا۔ واللہ أعلم۔
(4) ابوحمزہ ہے امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت اس لیے پیش کی تاکہ التباس کا خطرہ دور ہوجائے کیونکہ امام شعبہ رحمہ اللہ سات ایسے آدمیوں سے روایت کرتے ہیں جن کی کنیت ابوحمزہ ہے اور ایک ایسے آدمی بھی روایت کرتے ہیں جن کی کنیت ابوحمزہ ہے‘ اس سند میں یہی آدمی ہے‘ اس لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ یہ ان آدمیوں سے الگ شخص ہے جن کی کنیت ابوحمزہ ہے۔ اس کی کنیت ابوحمزہ ہے اور ناصر نصر بن عمران ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3840   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1202  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا زمانہ تمہارے تمام زمانوں سے بہتر ہے۔ پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے۔ نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر و نمایاں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1202»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد علي شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.»
تشریح:
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔
تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔
حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔
2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔
3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔
لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2221  
´خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ یہ لوگ دین وایمان کی فکر سے خالی ہوں گے،
کس کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا،
اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے،
اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4657  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4657]
فوائد ومسائل:

اس صحیح حدیث میں صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کے ادوار کے متعلق اجمالی اور مجموعی طور پر بھلائی کی خبر دی گئی ہے۔


ان کے بعد وقار میں کمی ہوگی۔
دینداری میں ضعف آجائے گا اور آخرت کی فکر کم ہوجائے گی۔


اطباء کے قول کے مطابق آدمی کے جسم میں موٹاپا عام طور پر خوش خوراکی کے علاوہ بے فکری اور بے خوفی کی بناء پر آتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4657