سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3893
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ رَافِعِ بْنِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى قَوْمِهِ إِلَى بَنِي حَارِثَةَ، فَقَالَ: يَا بَنِي حَارِثَةَ , لَقَدْ دَخَلَتْ عَلَيْكُمْ مُصِيبَةٌ، قَالُوا: مَا هِيَ؟ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْءٍ مِنَ الْحَبِّ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ؟ فَقَالَ:" لَا"، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي، قَالَ:" لَا ازْرَعْهَا , أَوِ امْنَحْهَا أَخَاكَ". خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ.
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیاریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 157) (صحیح) (اس کے راوی ”رافع بن اسید“ لین الحدیث ہیں، مگر متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہرحال حدیث صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3893  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ کہتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3893]
اردو حاشہ:
(1) رافع بن اسید نے اسید بن ظہیرکا واقعہ بنایا ہے جبکہ مجاہد نے اسے اسید بن ظہیر کے واسطے سے رافع بن خدیج سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے رافع بن خدیج کا واقعہ بنایا ہے۔
(2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم دیگر روایات کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ مالک اپنی زمین جیسے چاہے‘ بٹائی یا ٹھیکے پر دے سکتا ہے۔ شریعت کے اصول اسی بات کی تائید کرتے ہیں مگر چند شرائط ہیں کہ مزارع پر ظلم نہ ہو اور معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہوتی ہو۔ نبی ﷺ کی تشریف آوری کے وقت مدینہ منورہ کے لوگ ظالمانہ شرائط پر مزارعت کرتے تھے‘ مثلاً: اچھی زمین کی پیداوار اپنے لیے اور ناقص زمین کی پیداوار مزارع کے لیے۔ یا اس سے معین فصل (گندم یا جو وغیرہ کی معین مقدار) وصول کرلیتے تھے‘ اسے کچھ بچے یا نہ بچے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے مزارعت ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے ایسی مزارعت سے منع فرمایا ہے۔ یا بڑے جاگیرداروں کو منع فرمایا جن کے پاس فالتو زمینیں تھیں حتیٰ کہ وہ انہیں آباد نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے انہیں رغبت دلائی کہ تم زائد از ضرورت زمینیں اپنے مسلمان غریب بھائیوں کو ایک دو سال کے لیے دے دیا کرو ان سے پیداوار حاصل کرلیں اور اپنا گزارا کرلیں۔ تمہارا گزارا تو بخوبی ہورہا ہے۔ گویا یہ وقتی پابندی تھی جس کا حکومت کو اختیار ہوتا ہے‘ نیز یہ سب کے لیے نہیں تھی بلکہ صرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے لیے تھی۔ خصوصاً جبکہ اس دور میں مدینہ منورہ میں غریب مہاجرین بکثرت تھے۔ اب بھی اگر حکومت ضرورت محسوس کرے تو بڑے جاگیرداروں پر پابندی لگا سکتی ہے کہ وہ اتنی زمین اپنے پاس رکھیں جسے وہ خود بخوبی کاشت کرسکیں۔ باقی زمین غریب مزارعین میں تقسیم کردیں یا حکومت خود یہ کام کرے خصوصاً جبکہ یہ جاگیریں بھی حکومت وقت کی خوشامد اور ناجائز حمایت کرکے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر ایک حکومت کسی کو جاگیر دے سکتی ہے تو بعد میں آنے والی حکومت ان جاگیرداروں کو عوام الناس کے مفاد میں ختم بھی کرسکتی ہے اور محدود بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو کہ صحیح معنیٰ ہیں ایک مجتہد خلیفہ تھے‘ سے ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اور جہاں ایسے مفاسد نہ ہوں‘ وہاں بٹائی یا ٹھیکے پر زمین دینا صحیح ہے۔ خیبر کا علاقہ جو آپ کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہودیوں کو بٹائی پر دیا گیا۔ زمیندار صحابہ وتابعین اپنی زمینیں بٹائی وغیرہ پر دیتے تھے‘ لہٰذا یہ عمل صحیح ہے۔ بہر حال آپ کا منع فرمایا تو زمینداروں کی ظالمانہ شرائط لگانے کی بنا پر تھا یا انتظامی طور پر وقتی حکم یا مصلحت عامہ یا فقراء کی مواخاۃ کے پیش نظر تھا۔ یہ انتہائی مناسب تطبیق ہے جس سے سب روایات پر عمل ممکن ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3893