صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
12. بَابُ عِتْقِ الْمُشْرِكِ:
باب: مشرک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
حدیث نمبر: 2538
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَعْتَقَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، وَأَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا (ہشام بن عروہ نے کہا کہ) «أتحنث بها» کے معنی «أتبرر بها» کے ہیں) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا جو نیکیاں تم پہلے کر چکے ہو وہ سب قائم رہیں گی۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1436  
´کافر اگر مسلمان ہو جائے تو اسے اچھے کاموں کا بھی اجر ملتا ہے`
«. . . عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ صَدَقَةٍ أَوْ عَتَاقَةٍ وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ . . .»
. . . حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ ‘ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1436]

لغوی توضیح:
«اَتَحَنَّثُ» (بروزن تفعل) کا معنی ہے، میں عبادت و تقرب کی غرض سے جو کام کرتا تھا۔

فہم الحدیث:
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے اور پھر اسلام کی حالت میں ہی فوت ہو تو اسے ان اچھے کاموں کا بھی اجر ملتا ہے جو اس نے زمانہ کفر میں کیے ہوتے ہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 77   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2538  
2538. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ!مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2538]
حدیث حاشیہ:
یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔
مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔
اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔
جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (النساء: 54) (وحیدی)
حضرت حکیم بن حزام ؓ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔
پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔
چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔
کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔
پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔
اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔
غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔
﴿وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ﴾ (الشوریٰ: 20)
یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2538   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2538  
2538. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ!مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2538]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک انسان کا ثواب کی نیت سے غلام آزاد کرنا جائز ہے لیکن اس کا ثواب تب ہی ملے گا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کفر کی حالت میں ان لوگوں کی عبادت صحیح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ان کی کوشش (نیکی اور اچھائی)
دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی۔
(الکھف104: 18)
بلکہ اس کے بعد جب مسلمان ہو گا تو بحالت کفر کیے ہوئے نیک اعمال سے فائدہ حاصل کرے گا، چنانچہ حکیم بن حزام ؒ نے جب غلام آزاد کیے تو وہ اس وقت کافر تھے، ان کو ثواب مسلمان ہونے کے بعد حاصل ہوا، تو جس انسان نے بحالت مسلمان غلاموں کو آزاد کیا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب حاصل ہو گا۔
(2)
واضح رہے کہ کافر کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی اور نہ اسے آخرت ہی میں کوئی ثواب ملے گا، البتہ مسلمان بندوں پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ ان کی زمانۂ کفر میں کی ہوئی نیکیاں برقرار رہتی ہیں جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2538