سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3900
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَرْضِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَدْ عَرَفَ أَنَّهُ مُحْتَاجٌ، فَقَالَ:" لِمَنْ هَذِهِ الْأَرْضُ؟". قَالَ: لِفُلَانٍ , أَعْطَانِيهَا بِالْأَجْرِ. فَقَالَ:" لَوْ مَنَحَهَا أَخَاهُ". فَأَتَى رَافِعٌ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا , وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا: یہ زمین کس کی ہے؟ اس نے کہا: فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرائے پر دی ہے، آپ نے فرمایا: اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پردے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا)، تب رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لیے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لیے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3899 (صحیح) (سند میں راوی ’’ابراہیم‘‘ کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2465  
´غلہ کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2465]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
یہ اس وقت کی بات ہے جب تہائی چوتھائی یا غلے کی مقرر مقدار کےعوض زمین کرائے پردینے کی صرف ایک ہی صورت مروج تھی جس میں پانی کی نالیوں کےکنارے اورآبی گزر گاہوں وغیرہ کےقریب واقع زمین کےٹکڑے کی پیداوار مالک کےلیے مختص تھی۔
حدیث میں مذکور اسی صورت کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2465   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1384  
´مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1384]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیکھئے پچھلی حدیث اور اس کا حاشہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1384   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3395  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (بٹائی پر) کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ خود کاشت کرے، یا (اگر خود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھائی کو کاشت کروا دے اور اسے تہائی یا چوتھائی یا کسی معی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3395]
فوائد ومسائل:
تہائی چوتھائی یا متعین غلے پر کرائے کی ایک ہی صورت مروج تھی۔
جس میں آبی گزرگاہوں نالیوں وغیرہ کی پیداوار مالک کےلئے مختص تھی، اس صورت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3395