سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3904
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ , وَالْفِضَّةِ , وَلَا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ، فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ , وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ:" لَأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا". وَقَدِ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ، وَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ.
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دیدے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے۔ اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: «عن عطاء، عن رافع» (عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان ( «عن رافع» کے بجائے) «عن عطاء عن جابر» کہتے ہیں (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 10 (2330)، 18 (2342)، الہبة 35 (2634)، صحیح مسلم/البیوع 21(1550)، سنن ابی داود/البیوع 31 (3389)، سنن الترمذی/الأحکام 42 (1385)، سنن ابن ماجہ/الرہون 9 (2456)، 11(2464)، (تحفة الأشراف: 5735) مسند احمد (1/234، 281، 349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3904  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3904]
اردو حاشہ:
(1) حضرت طاوس مقررہ رقم کے ٹھیکے کو شاید‘ اس کے لیے ناپسند فرماتے ہوں گے کہ اس میں مزارع کے نقصان کا احتمال ہے۔ مالک زمین نے تو مقررہ وصول کرلی۔ زمین میں اتنی فصل ہو یا نہ ہو۔ البتہ بٹائی میں ایک فریق کے نقصان کا خطرہ نہیں۔ نقصان ہوگا تو دونوں کا‘ نفع ہوگا تو دونوں کا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مزارع کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے‘ البتہ ٹھیکہ بھی مجبوری کی بنا پر جائز ہے۔ ٹھیکہ دراصل زمین کا کرایہ ہے۔ جب دوسری چیزوں کا کرایہ جائز ہے تو زمین کا کرایہ بھی جائز ہے‘ نیز بٹائی میں تنازع کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی بھی ہوسکتی ہے‘ جبکہ ٹھیکہ کی صورت میں تنازع اور بدگمانی کا خطرہ نہیں رہتا۔
(2) مقررہ پیداوار یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ‘ نہ کہ وزن کے لحاظ سے معین کیونکہ یہ تو قطعاً جائز نہیں۔
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق یہ آپ نے بطور ہمدردی نصیحت فرمائی ہے نہ کہ شرعی قانون بیان فرمایا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3904   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2462  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے: عمرو! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں احترام پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

(2)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو وضاحت سے مسئلہ سمجھا کر مطمئن کرے۔
اپنے موقف کی تائید میں اپنے سے بڑے عالم کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس طرح تابعی حضرت طاوس رحمت اللہ علیہ نے دو صحابیوں حضرت معاذ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا اس سے عام سائل کو زیادہ اطمینان ہو جاتا ہے۔

(3)
مقرر معاوضہ سے مراد متعین رقم کا معاہدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2462