صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
13. بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ:
باب: اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے۔
حدیث نمبر: 2540
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ؟ فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، إِمَّا الْمَالَ، وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،" فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ". وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا.
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ (مسلمان ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں (میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کر دیتا) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہو گی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے (جعرانہ میں) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں (مال اور قیدی) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا امابعد! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کر دیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کر لے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے (اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے (اس) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کر دیں گے تو وہ ایسا کر لے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے (ان سے گفتگو کی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ (زہری نے کہا) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (جب بحرین سے مال آیا) کہا تھا کہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2540  
2540. حضرت مروان اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفدآیا تو آپ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے آپ سے عرض کیاکہ آپ ان کے قیدی اور مال واپس کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں جنھیں تم دیکھ رہے ہو، نیز میرے نزدیک اچھی بات وہ ہےجو سچی ہو، اب تم لوگ دوچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرسکتے ہو: مال لے لو یا قیدی چھڑا لو۔ میں نے تو ان (قیدیوں کی تقسیم) میں تاخیر کی تھی (اور تمہارا انتظار کرتا رہا)۔ نبی کریم ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد دس دن سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب اہل وفد کو یقین ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ انھیں دوچیزوں میں سے صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی اختیار کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں کھڑ ے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثنا کی، پھر فرمایا: أمابعد! تمہارے بھائی ہمارے پاس تائب ہوکر آئےہیں اور میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2540]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث حضرت امام بخاری ؒ کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے آپ نے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
حضرت امام نے باب منعقدہ کے ذیل آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس سے آپ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ غلام عرب کا نہ ہو عجمی ہو بلکہ عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔
حدیث میں قبیلہ عربی ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو جنگ ہوازن میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔
اس سے بھی مقصد باب ثابت ہوا کہ لونڈی غلام بوقت مناسب عربوں کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔
جب آپ ﷺ اس جنگ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو آپ واپس ہی ہوئے تھے کہ وفد ہوازن اپنے ایسے ہی مطالبات لے کر حاضر ہوگیا۔
آپ ﷺ نے ان کے مطالبات میں سے صرف قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ دیگر جملہ مسلمان بھی اس پر تیار ہوجائیں۔
چنانچہ جملہ اہل اسلام ان غلاموں کو واپس کرنے پر تیار ہوگئے۔
مگر یہ لوگ شمار میں بہت تھے۔
اس لیے ان میں سے ہر ایک کی رضا مندی فرداً فرداً معلوم کرنی ضروری تھی۔
آپ نے یہ حکم دیا کہ تم جاؤ اور اپنے اپنے چودھریوں سے جو کچھ تم کو منظور ہو وہ بیان کرو، ہم ان سے پوچھ لیں گے۔
چنانچہ یہی ہوا اور آنحضرت ﷺ نے ان کے جملہ مردوں عورتوں کو واپس کرادیا۔
بحرین کے مال کی آمد پر آنحضرت ﷺ نے تقسیم کے لیے اعلان عام فرمادیا تھا، اس وقت حضرت سیدنا عباس ؓ نے اس مال کی درخواست کے ساتھ کہا تھا کہ میں اس کا بہت زیادہ مستحق ہوں، کیوں کہ بدر کے موقع پر میں نہ صرف اپنا بلکہ حضرت عقیل ؓ کا بھی زر فدیہ ادا کرکے خالی ہاتھ ہوچکا ہوں۔
اس پر آپ ﷺ نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ جس قدر روپیہ خود آپ اٹھاسکیں لے جائیں۔
اسی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہ عربوں کو بھی بحالت مقررہ غلام بنایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس ؓ اور حضرت عقیل ؓ جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔
کاش یہ معزز حضرات شروع ہی میں اسلام سے مشرف ہوجاتے۔
مگر سچ ہے ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ﴾ (القصص: 56)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2540   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2540  
2540. حضرت مروان اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفدآیا تو آپ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے آپ سے عرض کیاکہ آپ ان کے قیدی اور مال واپس کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں جنھیں تم دیکھ رہے ہو، نیز میرے نزدیک اچھی بات وہ ہےجو سچی ہو، اب تم لوگ دوچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرسکتے ہو: مال لے لو یا قیدی چھڑا لو۔ میں نے تو ان (قیدیوں کی تقسیم) میں تاخیر کی تھی (اور تمہارا انتظار کرتا رہا)۔ نبی کریم ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد دس دن سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب اہل وفد کو یقین ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ انھیں دوچیزوں میں سے صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی اختیار کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں کھڑ ے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثنا کی، پھر فرمایا: أمابعد! تمہارے بھائی ہمارے پاس تائب ہوکر آئےہیں اور میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2540]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں قبیلۂ ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو غزوۂ حنین میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد، یعنی عربوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور انہیں ہبہ بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بنو ہوازن کے ساتھ ہوا۔
ہبہ کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ان تمام قیدیوں کو جو غلام بن چکے تھے، ان کے ورثاء کو ہبہ کر دیا، یعنی واپس کر دیا جنہیں لونڈی غلام بنا لیا گیا تھا۔
اسی طرح حضرت عباس ؓاور حضرت عقیل جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔
انہوں نے فدیہ دے کر اس سے رہائی حاصل کی۔
(2)
اس حدیث کے آخر میں معلق روایت ہے جسے امام بخاری ؒ نے خود ہی کتاب الصلاۃ، حدیث: 421 متصل سند سے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2540