سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3931
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ؟ فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ". قُلْتُ: بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ؟ قَالَ:" لَا، إِنَّمَا نَهَى عَنْهَا بِمَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْفِضَّةُ فَلَا بَأْسَ". رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَبِيعَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے روکا ہے، میں نے کہا: سونے، چاندی کے بدلے؟ کہا: نہیں (اس سے نہیں روکا ہے)۔ آپ نے تو اس سے صرف اس کی پیداوار کے بدلے روکا ہے۔ رہا سونا اور چاندی (کے بدلے کرایہ پر دینا) تو اس میں کوئی حرج نہیں سفیان ثوری نے بھی اسے ربیعہ سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3393  
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔`
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر (کھیتی کے لیے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ کی بات ہو تو؟ تو انہوں نے کہا: رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3393]
فوائد ومسائل:
ان سب احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ زمیندار (مزارعت میں) ایک ہی کھیت میں اپنے اور مزارع کےلئے الگ الگ حصوں کی پیداوار متعین کرلے تو اسطرح کی مزارعت ناجائز ہے۔
اور یہی وہ فاسد شرط ہے۔
جس کی موجودگی میں بٹائی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔
یہ قباحت نہ ہو بلکہ زمین متعین رقم یعنی ٹھیکے پر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3393