سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3937
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَانَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ: لَيْسَ بِاسْتِكْرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ بَأْسٌ , وَكَانَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ ذَلِكَ"، وَافَقَهُ عَلَى إِرْسَالِهِ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ الْحَارِثِ.
زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے: سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرائے پر اٹھانے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ عبدالکریم بن حارث نے اس کے مرسل ہونے میں ان کی موافقت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3580) (صحیح) (یہ روایت منقطع ہے، زہری کی رافع رضی الله عنہ سے ملاقات نہیں ہے، لیکن سابقہ متابعات کی وجہ سے صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3393  
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔`
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر (کھیتی کے لیے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ کی بات ہو تو؟ تو انہوں نے کہا: رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3393]
فوائد ومسائل:
ان سب احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ زمیندار (مزارعت میں) ایک ہی کھیت میں اپنے اور مزارع کےلئے الگ الگ حصوں کی پیداوار متعین کرلے تو اسطرح کی مزارعت ناجائز ہے۔
اور یہی وہ فاسد شرط ہے۔
جس کی موجودگی میں بٹائی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔
یہ قباحت نہ ہو بلکہ زمین متعین رقم یعنی ٹھیکے پر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3393