سنن نسائي
كتاب المزارعة -- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
0. بَابُ : 3 - باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ الأَلْفَاظِ الْمَأْثُورَةِ فِي الْمُزَارَعَةِ
باب: مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3967
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: لَمْ أَعْلَمْ شُرَيْحًا كَانَ يَقْضِي فِي الْمُضَارِبِ إِلَّا بِقَضَاءَيْنِ: كَانَ رُبَّمَا قَالَ لِلْمُضَارِبِ:" بَيِّنَتَكَ عَلَى مُصِيبَةٍ تُعْذَرُ بِهَا"، وَرُبَّمَا قَالَ لِصَاحِبِ الْمَالِ:" بَيِّنَتَكَ أَنَّ أَمِينَكَ خَائِنٌ , وَإِلَّا فَيَمِينُهُ بِاللَّهِ مَا خَانَكَ".
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب ۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18801) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: مضارب (راء کے زیر کے ساتھ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3967  
´مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر۔`
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب ۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3967]
اردو حاشہ:
(1) ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم دے کر کہے کہ تم اس سے کاروبار کرو‘ نفع ہم دونوں تقسیم کرلیں گے۔ اسے مضارب کہتے ہیں۔ رقم دینے والا تو مالک مال ہے اور لینے والے کو مضارب کہتے ہیں جو اس رقم سے کاروبار کرتا ہے۔ اگر مضارب آ کر کہہ دے کہ جناب! اصل مال سب یا کچھ چوری ہوگیا یا گم ہوگیا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ قاضی شریح جو کہ خلفائے راشدین کے دور کے قاضی القضاۃ تھے‘ کہ سامنے ایسا مسئلہ پیش ہوتا تھا تو وہ اندازہ لگاتے تھے کہ مضارب مشکوک ہے یا نہیں۔ اگر وہ مشکوک نظر آتا تو اسے کہتے: اپنی بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ تمہاری بات نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ بے گناہ نظر آتا تو مالک مال سے فرماتے کہ تم اس کی خیانت کا ثبوت پیش کرو‘ ورنہ اس کا خلیفہ بیان تسلیم کرلیا جائے گا۔ گویا وہ کبھی اسے مدعی قراردیتے اور کبھی مدعی علیہ کیونکہ اس لحاظ سے کہ وہ نقصان کا دعویٰ کررہا ہے‘ مدعی بن سکتا ہے اور اس لحاظ سے کہ تقاضے کے مطابق کہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہو‘ اسے دونوں میں سے کوئی ایک بنایا جاسکتا ہے۔
(2) مزارعت کے باب میں اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ مزارعت بھی مضاربت کی طرح ہے اور اسی پر قیاس ہے‘ لہٰذا اگر مالک زمین اور مزارع کے درمیان کوئی جھگڑا پیدا ہوجائے تو عدالت قاضی شریح رحمہ اللہ کے انداز فیصلہ سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے‘ یعنی مزارع کو مدعی بھی بنایا جاسکتا ہے اور مدعی علیہ بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3967