سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
1. بَابُ : تَحْرِيمِ الدَّمِ
باب: خون کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3989
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ وَكَانَ قَلِيلَ الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ، إِلَّا الرَّجُلُ يَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا، أَوِ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا".
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دے سوائے اس (گناہ) کے کہ آدمی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11420)، مسند احمد (4/99) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں توبہ کئے بغیر مر جائیں، نیز آیت کریمہ: «ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» یعنی: اللہ تعالیٰ شرک کے سوا دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے معاف کر سکتا ہے (سورة النساء: 48) کی روشنی میں مومن کے قصد و ارادہ سے عمداً قتل کو بھی بغیر توبہ کے معاف کر سکتا ہے (جس کے لیے چاہے) محققین سلف کا یہی قول ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ۴۰۰۴ کا حاشیہ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3989  
´خون کی حرمت کا بیان۔`
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دے سوائے اس (گناہ) کے کہ آدمی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 3989]
اردو حاشہ:
مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غصہ، لعنت او عذاب عظیم بتائی گئی ہے۔ کسی اور گناہ کی یہ سزا نہیں بتلائی گئی، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اسے مندرجہ بالا سزائیں بھگتنا ہوں گی۔ یا دنیا میں وہ قصاص دے دے، یعنی قصاصاً مار دیا جائے تو حد گناہ کو مٹا دیتی ہے ورنہ معاف نہ ہو گا۔ ویسے بھی یہ حقوق العباد میں سب سے اہم حق ہے اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حدیث میں بھی اسے کفر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا مومن کو جان بوجھ کر، بے گناہ قتل کرنا کفر کے مترادف ہے۔ أعاذنا اللہ۔ دوسرے گناہ تو نیکیوں کے تبادلے میں ختم ہو سکتے ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ نیکیوں کے تبادلے میں بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ إلا من رحم اللہ۔ کفر و شرک اور نفاق بھی ایسے ہی ہیں۔ البتہ کوئی شخص کفر کی حالت میں کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آ رہی ہے)۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3989