سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
2. بَابُ : تَعْظِيمِ الدَّمِ
باب: ناحق خون کرنے کی سنگینی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4010
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَرْقَاءُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ فِي يَدِهِ , وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ: يَا رَبِّ , قَتَلَنِي. حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ"، قَالَ: فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ , فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93 قَالَ: مَا نُسِخَتْ مُنْذُ نَزَلَتْ , وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آئے گا، اس کی پیشانی اور اس کا سر اس (مقتول) کے ہاتھ میں ہوں گے اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا، یہاں تک کہ وہ اسے لے کر عرش کے قریب جائے گا۔ راوی (عمرو) کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تلاوت کی اور کہا: جب سے یہ نازل ہوئی منسوخ نہیں ہوئی پھر اس کے لیے توبہ کہاں ہے؟۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء (3029)، (تحفة الأشراف: 6303) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2621  
´کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟`
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا، پھر توبہ کر لی، ایمان لے آیا، اور نیک عمل کیا، پھر ہدایت پائی؟ تو آپ نے جواب دیا: افسوس وہ کیسے ہدایت پا سکتا ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حال میں آئیں گے کہ مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہو گا، اور کہہ رہا ہو گا، اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ کی قسم! اس نے تمہارے نبی پر اس (قتل ناحق کی آیت) کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا ۱۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2621]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سائل کے سوال میں اللہ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ‌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا ثُمَّ اهتَدى﴾ (طہ20؍82)
اور بے شک میں اس شخص کو ضرور بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر ہدایت پر قائم رہے۔

(2)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے جواب میں اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا﴾ (النساء4؍93)
 جوکوئی مومن کو قصداً قتل کرڈالے تواس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اللہ تعالی نے اس کےلیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔

(3)
قتل کے گناہ کی معافی کئی طریقوں سے ممکن ہے:

(ا)
قصاص میں قتل ہو جانے سے، کیونکہ حد لگنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الحدود، حدیث: 2603)

(ب)
مقتول کے وارث کے معاف کردینے سے، خواہ یہ معافی دیت لے کر ہو، یا اللہ کی رضا کے لیے بلامعاوضہ ہو۔

(ج)
خلوص دل سے سچی توبہ کرلینے سے (جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)
۔

آیت مبارکہ میں قتل کے جرم کی اصل سزا کا ذکر ہے۔
اگر قاتل کو معافی نہ ملے تو اس کو یہ سزا مل سکتی ہے۔
بعض علماء نے اس سزا کو اس صورت پر محمول کیا ہے جب کہ قاتل قتل کو حلال سمجھے کیونکہ حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے اور کافر کی سزا دائمی جہنم ہے۔
یا ہمیشہ رہنے سے طویل زمانے تک جہنم میں رہنا مراد ہے۔
دیکھئے: (تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء، آیت: 93)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2621   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3029  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ۱؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہو گی؟ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3029]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے،
اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا (النساء: 93)۔

2؎:
کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے،
ابن عباس کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی،
ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے،
جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری،
مگر جمہور صحابہ وسلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے،
جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوگی تو قاتلِ عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی۔
البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کر دیں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3029