سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
7. بَابُ : تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الأَرْضِ ‏}‏
باب: آیت کریمہ: ”جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے“ کی تفسیر اور کن لوگوں کے بارے میں یہ نازل ہوئی ان کا ذکر اور اس بارے میں انس بن مالک رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4029
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً , قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا"، قَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَصَحُّوا , فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فَأَخَذُوهُمْ , فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ , وَأَرْجُلَهُمْ , وَسَمَّرَ أَعْيُنَهُمْ , وَنَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، بیمار پڑ گئے، انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ آپ نے فرمایا: کیا تم ہمارے چرواہوں کے ساتھ اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب پیو گے؟ وہ بولے: کیوں نہیں، چنانچہ وہ نکلے اور انہوں نے ان کا دودھ اور پیشاب پیا ۲؎، تو اچھے ہو گئے، اب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کئے، جنہوں نے انہیں گرفتار کر لیا، جب انہیں لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور قبیلہ عرینہ کے مجرمین کے پاؤں کاٹ دئیے، ان کی آنکھیں (گرم سلائی سے) پھوڑ دیں اور انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 66 (233)، الجہاد 152 (3018)، صحیح مسلم/القسامة 2 (1671)، سنن ابی داود/الحدود 3 (4364)، سنن الترمذی/الطہارة 55 (72)، (تحفة الأشراف: 945)، مسند احمد (3/161، 186، 198)، ویأتي فیما یلي: 4030- 4040 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس کا نزول قبیلہ عرنین کے مجرمین کے بارے میں ہوا ہے جب کہ مالک، شافعی، ابوثور اور اصحاب رأے کا کہنا ہے کہ اس کے نزول کا تعلق مسلمانوں میں سے ہر اس شخص سے ہے جو رہزنی اور زمین میں فساد برپا کرے، امام بخاری اور امام نسائی جمہور کے موافق ہیں۔ ۲؎: جمہور علماء محدثین کے نزدیک جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب پائخانہ پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے پیشاب سے علاج جائز ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا۔ ۳؎: ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ جس طرح کیا تھا اسی طرح آپ نے ان کے ساتھ قصاص کے طور پر کیا، یا یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے والے باغی تھے اس لیے ان کے ساتھ ایسا کیا، جمہور کے مطابق اگر اس طرح کے لوگ مسلمان ہوں تو جن ہوں نے قتل کیا ان کو قتل کیا جائے گا، اور جنہوں نے صرف مال لیا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، اور جنہوں نے نہ قتل کیا اور نہ ہی مال لیا بلکہ صرف ہنگامہ مچایا تو ایسے لوگوں کو اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ قید کر دیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 306  
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 306]
306۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انہیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہو گئی۔
اونٹوں کے پیشاب پیو۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیر مسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔
➌ جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے، وہ اس حدیث کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنہیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماًً شفا ہو گی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔
➍ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انہیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انہیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انہیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: «كتب عليكم القصاص فى القتلي» [البقرة 178: 2]
تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔
قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا، مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لاقود الا بالسيف» [سنن ابن ما جه، الديات، حديث: 2668]
یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداًً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 306   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 307  
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) آئے، اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد ہو گئے، اور پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی اونٹنیوں کے پاس بھیج دیا ۱؎ اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو گئے، تو ان لوگوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا، چنانچہ انہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 307]
307۔ اردو حاشیہ:
گویا یہ حدیث مرسل ہے۔ مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا۔
کفر کی وجہ سے دراصل ان کے کئی جرم تھے۔ کفر، قتل، ڈاکا، درندگی۔ ہر جرم کی سزا ضروری تھی، چونکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے صرف اس کا ذکر کیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ورنہ صرف کفر کی بنا پر اس طرح قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے یہ سلوک ان کے مجموعی جرائم کی بنا پر کیا گیا جن میں کفر بھی شامل ہے۔
➌ یہ لوگ دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ عکل اور عرینہ۔ پہلی روایت میں عکل کا ذکر ہے اور اس میں عرینہ کا۔ یہ کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 438/1، 439، تحت حدیث: 233]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 307   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4029  
´آیت کریمہ: جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے کی تفسیر اور کن لوگوں کے بارے میں یہ نازل ہوئی ان کا ذکر اور اس بارے میں انس بن مالک رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4029]
اردو حاشہ:
(ٍ1) سنن نسائی کی مذکورہ روایت، نسائی شریف کے علاوہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے ساتھ ساتھ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ صحیحین سمیت دیگر تمام کتب مذکورہ میں یہ روایت ہر کتاب میں، ایک سے زیادہ مقامات میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں نسائی شریف میں اس مقام پر ہے کہ قبیلۂ عکل کے آٹھ افراد نبیٔ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سنن نسائی ہی کی دوسری روایات میں، کسی میں تو حاضر ہونے والے لوگوں کو قبیلۂ عرینہ کے لوگ کہا گیا ہے اور کسی روایت میں انہیں عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھئے مذکورہ باب کے تحت وارد شدہ احادیث) مزید برآں یہ کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی احادیث کی صورت حال بھی یہی ہے کہ کسی روایت میں انہیں عکل قبیلے کے افراد بتلایا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ ملاحظہ فرمائیے: (صحیح البخاري، الجهاد، الزکاة، باب استعمال إبل الصدقة و ألبانها…، حدیث: 1501، و صحیح البخاري، الجهاد و السیر، باب إذا حرق المشرك المسلم ہل یحرق؟ حدیث: 3018، و صحیح مسلم، القسامة و المحاربین، باب حكم المحاربین و المرتدین، حدیث: 1671 و ما بعد) بظاہر ان احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں تضاد قطعاً نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ آنے والے، عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ تھے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ چار افراد قبیلۂ عرینہ میں سے تھے اور تین عکل میں سے اور ایک شخص ان دونوں قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلے میں سے تھا۔ چونکہ یہ سارے کے سارے آٹھوں افراد اکٹھے ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے، اس لیے کسی حدیث میں انہیں عکل قبیلے کے افراد کہا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ و اللّٰہ أعلم۔
(2) موافق نہ پایا چونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے سے آئے تھے، آب و ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے جیسا کہ عموماً مسافروں کو کسی دوسرے ملک میں جانے سے صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کچھ مدت بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو طویل مدت تک بھی ادھر کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔
(3) دودھ اور پیشاب پیو دودھ تو ان کی مرغوب غذا تھی۔ پیشاب پیٹ کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب پاک ہے۔ تبھی آپ نے پینے کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے قائل نہیں، وہ اسے علاج کی مجبوری بتلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علاج پلید چیز کے ساتھ بھی جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں۔ وہ اس کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔
(4) قتل کر دیا دراصل یہ لوگ ڈاکو تھے۔ ممکن ہے آئے ہی بری نیت سے ہوں یا اظہار اسلام دھوکا دہی کے لیے ہو۔ ہو سکتا ہے اسلام لاتے وقت نیت صحیح ہو مگر چونکہ وہ اصلاً ڈاکو تھے، اس لیے جب انہوں نے اتنے اونٹوں میں صرف دو چرواہے دیکھے تو ان کی نیت میں فتور آ گیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے چلتے بنے۔ بعض تاریخی روایات میں ان اونٹوں کی تعداد پندرہ مذکور ہے۔ و اللّٰہ أعلم۔
(5) انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا سنن نسائی کی اس روایت (4029) میں اسی طرح مفرد کے الفاظ ہیں جبکہ سنن نسائی ہی کی ایک دوسری روایت (4040) میں جمع کے الفاظ ہیں، یعنی انہوں نے چرواہوں کو قتل کر دیا نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں بھی مفرد اور جمع دونوں طرح کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ روایت چودہ مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ تیرہ مقامات پر مفرد کے الفاظ مذکور ہیں جبکہ ایک جگہ جمع کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الحدود، [باب ] کتاب المحاربین … حدیث: 6802) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ بھی مفرد اور جمع، دونوں طرح کے الفاظ لائے ہیں۔ جمع کے الفاظ کے لیے دیکھئے: (صحیح مسلم، القسامة و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: 1671) اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ چرواہے صرف دو تھے۔ اس کی صراحت صحیح ابو عوانہ میں ہے۔ ایک وہ جسے رسول اللہ ﷺ کا چرواہا کہا گیا ہے اور اسے ہی ان لوگوں نے قتل کیا تھا۔ اس کا نام یسار تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ خوبصورت انداز میں نماز ادا کرتے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اسے آزاد فرما دیا تھا۔ دوسرا چرواہا یہ سب کچھ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا، اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اونٹنیاں ہانک لے گئے ہیں، چنانچہ رسول اللﷺ نے ان کے پیچھے، ان کی تلاش میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت روانہ فرمائی، انہوں نے ان بدقماش لوگوں کو راستے ہی میں جا لیا اور انہیں پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا، چنانچہ آپ نے چرواہے کے قصاص میں اس کے سب قاتلوں کے ساتھ جو کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی تھے، وہی سلوک کیا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا، یعنی آپ نے ان کے ہاتھ سختی کے ساتھ کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر پیاسے مر گئے۔ مقتول چرواہے کا نام یسار بن زید ابوبلال تھا، دوسرے، اطلاع دینے والے کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کے بیان کرنے والے اکثر راویوں کا اتفاق ہے کہ مقتول صرف نبی ﷺ ہی کا چرواہا تھا، اس کے ساتھ دوسرا کوئی چرواہا قتل نہیں ہوا، جن اِکا دُکا راویوں نے جمع کے الفاظ بولے ہیں وہ مجازاً ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کو چونکہ جمع کے کم از کم افراد (أقل الجمع) دو ہوتے ہیں، چرواہے بھی دو ہی تھے اور وہ لوگ بھی ان دونوں کو قتل کرنا چاہتے تھے، ایک جان بچا کر بھاگ نکلا تھا، اس لیے بعض رواۃ نے جمع کے الفاظ بیان کر دئیے ہیں۔ راجح اور درست بات یہی ہے کہ صرف ایک چرواہا ہی قتل ہوا تھا۔ اس کی تائید اصحاب مغازی کی بیان کردہ ان تاریخی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے صرف ایک چرواہے یسار کے قتل ہی کا ذکر کیا ہے۔ و اللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (فتح الباري: 1/441، 442)
(6) حتیٰ کہ وہ مر گئے آپ نے ان کو یہ سخت سزا بلاوجہ نہیں دی بلکہ ان کے جرائم ایک سے زیادہ تھے۔ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ چرواہے کو قتل کیا۔ صرف قتل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے، آنکھوں میں سلائیاں پھیریں، پھر اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا دھوپ میں گرم پتھروں پر پھینک دیا، اور خون نچڑ نچڑ کر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اونٹ اور دیگر سامان لوٹ کر لے گئے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے جو ان کو سزا دی، وہ تو صرف چرواہے کے ساتھ سلوک کا بدلہ تھا۔ باقی جرائم کی سزائیں اس کے تحت ہی آ گئیں۔ جب مجرم جرم کرتے وقت ترس نہ کھائے تو قصاص لیتے وقت اس پر بھی ترس نہیں کھانا چاہیے، ورنہ جرائم نہ رک سکیں گے۔ مجرم کو اس کے جرم کے مماثل سزا دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کا مفاد بھی یہی ہے۔ جن فقہاء نے اس قسم کی سزا کو  لا قوَدَ إلّا بالسَّيفِ جیسی ضعیف روایت کی وجہ سے منسوخ کہا ہے، درست نہیں، کیونکہ ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ﴾ کے مفہوم سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت (آیت محاربہ) تو اس بارے میں صریح ہے اور باب والی حدیث اس کی واضح تائید کرتی ہے۔ و اللہ أعلم۔ (یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔)
(7) اگر قابو آنے سے پہلے مجرم سچی توبہ کر لے تو ان شاء اللہ معافی کی امید کی جا سکتی ہے، اگرچہ حقوق العباد ہی کیوں نہ ہوں۔ و اللّٰہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4029   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 233  
ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
اگرچہ راجح بات یہی ہے لیکن اس مسئلہ میں علما کا اختلاف بہرحال موجود ہے۔
(مالکیہ، حنابلہ) ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ امام نخعی، امام اوزاعی، امام زہری، امام محمد، امام زفر، امام ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور امام ابن حبان رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ [المغني 490/12] ۱؎
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرنیین کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب (بطور دواء) پینے کا حکم دیا۔ [بخاري 233] ۲؎
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے (درآں حالیکہ وہاں کی اکثر جگہ کا ان کے پیشاب و پاخانہ سے آلودہ ہونا لازمی امر ہے)۔ [ترمذي 348] ۳؎
➌ حرام اشیاء میں شفا نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ «إن الله لم يجعل شفائكم فيما حرم عليكم» بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان اشیاء میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ [بخاري قبل الحديث 5614] ۴؎
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل دواء خبيث» اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خبیث دوا (کے استعمال) سے منع فرمایا: ہے۔ [أبوداود 3870] ۵؎
عرنیین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا اور انہیں شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت و طہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ حرام میں شفا نہیں ہے۔
(شافعیہ، حنفیہ) پیشاب حیوان کا ہو یا انسان کا مطلق طور پر نجس و پلید ہے۔ [الدر المختار 295/1] ۶؎
(ابن حجر رحمہ اللہ) انہوں نے جمہور سے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ [فتح الباري 291/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔۔۔ ان میں سے ایک شخص کو اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ «فكان لا يستتر من البول» وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ [بخاري 216] ۷؎
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور پیشاب سے مراد صرف انسان کا پیشاب ہے نہ کہ تمام حیوانات کا بھی جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب قبر کے متعلق کہا: تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہیں کیا۔ [بخاري قبل الحديث 217] ۸؎
(راجح) حنابلہ و مالکیہ کا موقف راجح ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل طہارت ہے جب تک کہ شرعی دلیل کے ذریعے کسی چیز کا نجس ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ [نيل الأوطار 100/1] ۹؎
------------------
۱؎ [المغني 490/12، القوانين الفقهية ص/33، كشاف القناع 220/1، الشرح الصغير 1 /47]
۲؎ [بخاري 233، كتاب الوضوء: باب أبوال الإبل والدواب والغنم، مسلم 1671، أبو داود 4364، نسائي 160/1، ترمذي 72، ابن ماجة 2578، ابن ابي شيبة 75/7، أحمد 107/3، ابن حبان 1386، دارقطني 131/1، بيهقي 4/10]
۳؎ [صحيح: ترمذي 348، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغم . . .، مسلم 817]
۴؎ [بخاري قبل الحديث 5614، كتاب الأشربة: باب شراب الحلواء والغسل]
۵؎ [صحيح: صحيح أبو داود 3278، كتاب الطب: باب الأدوية المكر وهة، أبوداود 3870، ترمذي 2045، ابن ماجة 3459، أحمد 305/2]
۶؎ [فتح القدير 146/1، الدر المختار 295/1، مراقي الفلاح ص/25، مغني المحتاج 79/1، المبسوط۔ 54/1، الهداية 36/1]
۷؎ [بخاري 216، 218 كتاب الوضوء: باب من الكبائر أن لا يستر من بوله، مسلم 292، أبو داود 20، ترمذي 70، نسائي 28/1، ابن ماجة 347، بيهقي 104/1، ابن خزيمة 56، ابن حبان 3118، ابن الجارود 130]
۸؎ [بخاري قبل الحديث 217 كتاب الوضوء: باب ما جاء فى غسل البول]
۹؎ [نيل الأوطار 100/1، الروضة الندية 73/1، فتح الباري 384/1]
* * * * * * * * * * * * * *

10۔ تمام غیر ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دینا درست نہیں
➊ کیونکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔
➋ اور جو روایت اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے: «لا بأس ببول ما أكل لحمه» ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ضعیف و ناقابل حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں سوار بن مصعب راوی ضعیف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ [ضعيف: دارقطني 128/1] ۱؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ خبر باطل موضوع ہے۔ [المحلي بالآثار 180/1]
لہٰذا راجح بات یہی ہے یقینی طور پر صرف انسان کے بول و براز کی نجاست پر ہی اکتفاکیا جائے علاوہ ازیں بقیہ حیوانات میں سے جس کے بول و براز کے متعلق طہارت یا نجاست کا حکم صریح نص سے ثابت ہو جائے اسے اسی حکم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور اگر ایسی کوئی دلیل نہ ملے تو اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی زیادہ درست اور قرین قیاس ہے۔ [نيل الأوطار 101/1] ۲؎
------------------
۱؎ [ضعيف: دارقطني 128/1، ميزان الاعتدال 246/2]
۲؎ [نيل الأوطار 101/1، السيل الجرار 311/1، الروضة الندية 74/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 144   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3503  
´اونٹ کے پیشاب کے حکم کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، اور بیمار ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ہمارے اونٹوں کے پاس جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیتے (تو اچھا ہوتا)، تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3503]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ان افراد میں کچھ قبیلہ عکل کے تھے۔
اور کچھ قبیلہ عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔

(2)
اگرکسی جگہ کی آب وہواموافق نہ ہو تو دوسری مناسب جگہ چلے جانا درست ہے۔
اس کا حکم وبا سے بھاگنے کی کوشش کا نہیں۔

(3)
بیت المال کی کسی چیز کو مالک بنائے بغیر اسے عاریتاً بھی دی جا سکتی ہے۔
تا کہ وہ اس سے حسب ضرور فائدہ اٹھائے۔

(4)
اونٹنیوں کے دودھ میں پیٹ کے بڑھ جانے کا علاج ہے۔

(5)
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
ان کاپیشاب علاج کے طور پرپینا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3503   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 72  
´جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے،
اور یہی محققین محدثین کا قول ہے،
نا پاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 72