صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
17. بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ، وَقَوْلِهِ عَبْدِي، أَوْ أَمَتِي:
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 2554
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور غلام اپنے آقا (سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہو گی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1705  
´امام اور حاکم کی ذمہ داریوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی،
اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ دار ی کا حساب وکتاب بھی دینا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1705   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2928  
´امام (حکمراں) پر رعایا کے کون سے حقوق لازم ہیں؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2928]
فوائد ومسائل:
ہر فرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔
لہذا کوئی بھی اپنے دینی و دنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔
یہی احساس ذمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔


بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔
مگر ماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔
اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران) بنایا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2928   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2554  
2554. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سب نگہبان ہو اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ جو لوگوں کا امیر ہے وہ ان کانگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا مرد اپنے اہل خانہ کانگہبان ہے، اس سے ان کے بارے میں سوا ل کیاجائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اسکے بچوں کی نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائےگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کانگہبان ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ سن لو!تم سب نگہبان ہو اور سب سے اس کی نگہبانی کے متعلق باز پر س ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2554]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں بھی غلام کے لیے لفظ عبد اور آقا کے لیے لفظ سید کا استعمال ہوا ہے۔
اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے۔
حضرت امام ؒ کا یہی مقصد ہے جس کے تحت یہاں آپ یہ جملہ روایات لائے ہیں۔
ان الفاظ کا استعمال منع بھی ہے جب حقیقی معانی مراد لیے جائیں۔
اور یہ اس میں تطبیق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2554