سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
17. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الأَعْمَشِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
باب: اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4080
أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: غَضِبَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى رَجُلٍ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَغَيَّرَ لَوْنُهُ، قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ , وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرْتَنِي لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ. فَكَأَنَّمَا صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ بَارِدٌ , فَذَهَبَ غَضَبُهُ عَنِ الرَّجُلِ، قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا بَرْزَةَ،" وَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ , وَالصَّوَابُ أَبُو نَصْرٍ وَاسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ. خَالَفَهُ شُعْبَةُ.
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک آدمی پر سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ ان کا رنگ بدل گیا، میں نے کہا: اے رسول اللہ کے خلیفہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں، اچانک دیکھا گویا آپ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو، چنانچہ اس شخص پر آپ کا غصہ ختم ہو گیا اور کہا: ابوبرزہ! تمہاری ماں تم پر روئے، یہ مقام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا ہے ہی نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ (ابونضرۃ) غلط ہے صحیح ابونصر ہے، ان کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے مخالفت کرتے ہوئے اس (ابونضرۃ) کے برعکس (ابونصر) کہا ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4076 (صحیح) (نمبر 4082 میں آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس میں انقطاع ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4080  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک آدمی پر سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ ان کا رنگ بدل گیا، میں نے کہا: اے رسول اللہ کے خلیفہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں، اچانک دیکھا گویا آپ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو، چنانچہ اس شخص پر آپ کا غصہ ختم ہو گیا اور کہا: ابوبرزہ! تمہاری ماں تم پر روئے، یہ مقام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا ہے ہی نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4080]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ سے مذکورہ حدیث زید نے بیان کی تو عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة عَنْ أَبِیْ نَضْرَة کہا۔ لیکن عمرو بن مرہ سے یہی روایت امام شعبہ نے بیان کی تو فرمایا: عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّة قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ، یعنی ابو نضرہ (بالضاد) کے بجائے ابو نصر (بالصاد) کہا، نیز اس میں ۃ، یعنی جو حالت وقف میں ہ پڑھی جاتی ہے، وہ بھی بیان نہیں کی، صرف ابو نصر کہا اور بس۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ شعبہ نے زید کی مخالفت کی ہے اور وہ زید سے احفظ و اتقن ہے، اس لیے شعبہ کی بات درست ہے اور صحیح لفظ ابو نصر ہے، جبکہ زید کی بات مبنی برخطا ہے۔ و اللہ أعلم۔
(2) رنگ بدل گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی بردبار اور متحمل مزاج شخص تھے۔ جلدی اور زیادہ غصے میں نہیں آتے تھے۔ اس شخص نے کوئی بڑی غلطی یا گستاخی کی ہو گی جس پر اس قدر غصہ آ گیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
(3) ٹھنڈا پانی قربان جائیے خلیفۂ رسول پر کہ غلط بات سن کر حالت بدل گئی، حالانکہ ظاہراً یہ بات ان کے حق میں تھی۔ اگر کوئی خوشامد پسند بادشاہ ہوتا تو اس کا پارہ اور چڑھتا مگر یہ خلیفۂ رسول تھے۔ فوراً ناراضی کا اظہار فرمایا کہ میرے بارے میں غلو کیوں کیا؟ یاد رہے خلیفۂ رسول کا لقب صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ خاص تھا، باقی تمام خلفاء راشدین کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ انہوں نے خلافت رسول کا حق ادا کر دیا۔ جب تک اُس کمزور جان میں جان رہی، رسول اللہ ﷺ کے دین میں ذرہ بھر تبدیلی برداشت نہ کی۔
(4) تیری ماں تجھے گم پائے یعنی تو مر جائے۔ یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اہل عرب میں اس کا استعمال عام ہے۔ اس جگہ اس کا مقصد اظہار ناراضی ہے نہ کہ بد دعا۔ عرف عام میں ایسا ہوتا ہے۔
(5) یہ مرتبہ اور حق نہیں کہ اس کی ناراضی کسی کے قتل کا موجب ہو۔ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شان ہے کہ جس پر ناراض ہو جائیں، اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہے اور اجازت ملنے پر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری تیری ناراضی کا یہ درجہ نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4080   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4363  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ ایک شخص پر ناراض ہوئے اور بہت سخت ناراض ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول کے خلیفہ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن مار دوں، میری اس بات نے ان کے غصہ کو ٹھنڈا کر دیا، پھر وہ اٹھے اور اندر چلے گئے، پھر مجھ کو بلایا اور پوچھا: ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، بولے: اگر میں تمہیں حکم دے دیتا تو تم اسے کر گزرتے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، ضرور، بولے: نہیں، قسم اللہ کی! محمد صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4363]
فوائد ومسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کا یہ مقام ومرتبہ نہیں کہ اس کی مخالفت یا بے ادبی کرنے والے کی جان ماردی جائے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو یا عزیزومحترم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4363