سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
17. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الأَعْمَشِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
باب: اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4082
أَخْبَرَنِي أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَغَضِبَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ غَضَبُهُ عَلَيْهِ جِدًّا، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ، قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ , أَضْرِبُ عُنُقَهُ. فَلَمَّا ذَكَرْتُ الْقَتْلَ أَضْرَبَ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ أَجْمَعَ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ النَّحْوِ , فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَرْزَةَ، مَا قُلْتَ: وَنَسِيتُ الَّذِي، قُلْتُ: قُلْتُ: ذَكِّرْنِيهِ، قَالَ: أَمَا تَذْكُرُ مَا قُلْتَ؟!، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ حِينَ رَأَيْتَنِي غَضِبْتُ عَلَى رَجُلٍ؟، فَقُلْتَ: أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ، أَمَا تَذْكُرُ ذَلِكَ أَوَ كُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ، قُلْتُ: نَعَمْ , وَاللَّهِ وَالْآنَ إِنْ أَمَرْتَنِي فَعَلْتُ. قَالَ:" وَاللَّهِ مَا هِيَ لِأَحَدٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ أَحْسَنُ الْأَحَادِيثِ وَأَجْوَدُهَا , وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، آپ ایک مسلمان آدمی پر غصہ ہوئے اور آپ کا غصہ سخت ہو گیا، جب میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں نے یہ ساری گفتگو بدل کر دوسری گفتگو شروع کر دی، پھر جب ہم جدا ہوئے تو مجھے بلا بھیجا اور کہا: ابوبرزہ! تم نے کیا کہا؟ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ بھول چکا تھا، میں نے کہا: مجھے یاد دلائیے، تو آپ نے کہا: کیا تم نے جو کہا تھا وہ تمہیں یاد نہیں آ رہا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! تو آپ نے کہا: جب مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے دیکھا تو کہا تھا: اے خلیفہ رسول! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ کیا یہ تمہیں یاد نہیں ہے؟ کیا تم ایسا کر گزرتے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! اگر آپ اب بھی حکم دیں تو میں کر گزروں، تو آپ نے کہا: اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی کا یہ مقام نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس سے متعلق مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے بہتر اور عمدہ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4076 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سند کے لحاظ سے بہتر اور عمدہ ہونا ہے، کیونکہ پچھلی دونوں سن دوں میں انقطاع ہے جیسا کہ گزرا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4082  
´اس حدیث میں تلامذہ اعمش کا اعمش سے روایت میں اختلاف کا ذکر۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، آپ ایک مسلمان آدمی پر غصہ ہوئے اور آپ کا غصہ سخت ہو گیا، جب میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں نے یہ ساری گفتگو بدل کر دوسری گفتگو شروع کر دی، پھر جب ہم جدا ہوئے تو مجھے بلا بھیجا اور کہا: ابوبرزہ! تم نے کیا کہا؟ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ بھول چکا تھا، میں نے کہا: مجھے یاد دلائ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4082]
اردو حاشہ:
یہ تفصیلی روایت ہے جس سے اوپر والی احادیث کے تمام ابہامات دور ہو جاتے ہیں۔ مسئلۂ باب کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔ دیکھئے، حدیث: 4075) اس مسئلے کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک مستقل کتاب موجود ہے۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول یہ بہت مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ اس میں حضرت امام نے تفصیلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی بکنے والا واجب القتل ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر۔ ذمی کو تو حکومت علانیہ قتل کرے گی اور غیر مسلم ملک کے کافر کو خفیہ قتل کروایا جائے گا۔ یا جیسے بھی ممکن ہو۔ حکومت کرے یا کوئی عام مسلمان۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4082   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4363  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ ایک شخص پر ناراض ہوئے اور بہت سخت ناراض ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول کے خلیفہ! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن مار دوں، میری اس بات نے ان کے غصہ کو ٹھنڈا کر دیا، پھر وہ اٹھے اور اندر چلے گئے، پھر مجھ کو بلایا اور پوچھا: ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، بولے: اگر میں تمہیں حکم دے دیتا تو تم اسے کر گزرتے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، ضرور، بولے: نہیں، قسم اللہ کی! محمد صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4363]
فوائد ومسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کا یہ مقام ومرتبہ نہیں کہ اس کی مخالفت یا بے ادبی کرنے والے کی جان ماردی جائے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو یا عزیزومحترم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4363