سنن نسائي
كتاب تحريم الدم -- کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
26. بَابُ : مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ ثُمَّ وَضَعَهُ فِي النَّاسِ
باب: جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔
حدیث نمبر: 4106
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا , فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ، وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ، وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ , وَالْأَنْصَارُ، وَقَالُوا: يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، فَقَالَ:" إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ". فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرَ الْعَيْنَيْنِ , نَاتِئَ الْوَجْنَتَيْنِ , كَثَّ اللِّحْيَةِ , مَحْلُوقَ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ:" مَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ , أَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي"، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ , فَمَنَعَهُ فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ:" إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَخْرُجُونَ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ , يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ , يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی لگا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی (جو بنی مجاشع کے ایک شخص تھے)، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (جو بنی کلاب کے ایک شخص تھے)، زید الخیل طائی (جو بنی نبہان کے ایک شخص تھے) کے درمیان تقسیم کیا، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اس پر قریش اور انصار غصہ ہوئے اور بولے: آپ اہل نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تو صرف ان کی تالیف قلب کر رہا ہوں، اتنے میں ایک شخص آیا، اس کی آنکھیں بیٹھی ہوئی تھیں، گال پھولے ہوئے تھے، داڑھی گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ وہ بولا: محمد! اللہ سے ڈرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں ہی نافرمانی کرنے لگا تو اللہ کی اطاعت کون کرے گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ زمین والوں پر امین بنا رہا ہے اور تم میرا اعتبار نہیں کرتے۔ اتنے میں لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی، آپ نے اسے منع فرما دیا۔ جب وہ لوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے خاندان میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق کے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں انہیں پا جاؤں تو انہیں عاد کے لوگوں کی طرح قتل کروں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2579 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کتاب تحریم الدم یا کتاب المحاربۃ (جنگ) سے مطابقت اسی جملے سے ہے، یعنی: خارجیوں کا خون بہانا جائز ہے، اس لیے علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔ [عمدة القاري للعيني: 181/25]

لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 320   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4106  
´جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی لگا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی (جو بنی مجاشع کے ایک شخص تھے)، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (جو بنی کلاب کے ایک شخص تھے)، زید الخیل طائی (جو بنی نبہان کے ایک شخص تھے) کے درمیان تقسیم کیا، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اس پر قریش اور انصار غصہ ہوئے اور بولے:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4106]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے۔
(2) اسلام کی طرف مائل کرنے، نیز اسلام کا گرویدہ کرنے کے لیے مؤلفۃ القلوب لوگوں کو زکاۃ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تالیف قلب کے لیے انہی چار افراد میں سارا سونا تقسیم فرما دیا۔ چونکہ وہ چاروں افراد بڑے بڑے قبیلوں کے سردار تھے۔ نو مسلم تھے۔ ابھی یہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے۔ ایمان دل میں جاگزیں نہ ہوا تھا۔ اس قسم کے لوگوں کو مال مل جائے تو بڑے خوش ہوتے ہیں او وفادار بن جاتے ہیں۔ مال نہ ملے تو فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ ارتداد کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ (جیسے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہوا)۔ اس لیے آپ نے انہیں خوب عطیات دیے۔ حنین کی غنیمت سے بھی انہیں سو سو اونٹ دیے اور دیگر عطیات سے بھی نوازا۔ آپ کا مقصد ان کی تالیف قلب تھا تاکہ ان کے دلوں میں ایمان جاگیزیں ہو جائے اور وہ پکے مومن بن جائیں۔ قریش و انصار چونکہ ایمان میں پختہ تھے، ان سے اس قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا، اس لیے آپ نے انہیں کچھ نہ دیا۔
(3) غصہ آ گیا یہ غصہ بھی بعض نوجوانوں کو آیا تھا ورنہ سابقون اولون مہاجرین و انصار سے تو اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔
(4) اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ محض قرآن مجید کی تلاوت کسی شخص کے مومن صادق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی جبکہ وہ قرآن مقدس کے عملی تقاضے پورے نہ کرے۔
(5) رسول اللہ ﷺ انتہائی متحمل مزاج او عفو سے کام لینے والے عظیم انسان تھے۔ بڑے بڑے بے ادب اور گستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر فرما جایا کرتے تھے، بالخصوص اپنی ذات کی خاطر کسی سے بھی انتقام نہ لیتے تھے۔
(6) اس حدیث سے خوارج کے ساتھ قتال کرنے کی مشرعیت بھی ثابت ہوتی ہے، خواہ انہیں مرتد سمجھ کر ان سے قتال کیا جائے یا امام عادل کا باغی سمجھ کر کیا جائے۔
(7) اس حدیث سے خارجیوں کی کچھ نشانیاں بھی معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: ظاہراً وہ عام مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ عبادت گزار ہوتے ہیں، نیز یہ بھی کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں مسلمانوں سے بہت زیادہ عداوت بھی رکھتے ہیں۔
(8) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بغیر قصد و ارادہ کے دین اسلام سے نکل جاتے ہیں، حالانکہ وہ دین اسلام پر کسی بھی دوسرے دین و مذہب کو قطعاً ترجیح نہیں دے رہے ہوتے۔
(9) رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے شخص کا نام حدیث میں ذوالخویصرہ مذکور ہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3610) بلاشبہ معترض کا یہ اعتراض غلط اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اس سے نفاق مترشح ہوتا ہے۔
(10) اس معترض کو قتل کرنے کی اجازت طلب کرنے والے حضرات جناب خالد بن ولید اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ صحیح بخاری میں ان دونوں کے ناموں کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (حدیث: 3344، 3601)
(11) اس حدیث پاک سے عمر بن خطاب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت و منقبت بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کو قتل کرنے پر تیار ہو گئے۔ (12) حلق سے نیچے نہ جائے گا یعنی قرآن کی سمجھ حاصل نہ ہو گی۔ صرف پڑھنے سے علم و حکمت کا حصول نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(13) صاف نکل جاتا ہے جس طرح تیز تیر اپنے شکار سے بالکل صاف نکل جاتا ہے۔ خون یا گوبر کی آلودگی سے صاف رہتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ قرآن مجید سے کورے نکل جائیں گے اور انہیں دین کا فہم حاصل نہیں ہو گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کافر ہوں گے کیونکہ خوارج بہر صورت مسلمانوں کا ایک فرقہ تھے جو دین کے مبادی کا اقرار کرتے تھے مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ چھوڑ دینے کی وجہ سے گمراہ ہو گئے۔
(14) یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حامی تھے، پھر بغاوت کر دی۔ بغاوت کی وجہ سے انہیں خارجی یا خوارج کہا گیا ہے۔ (عربی میں خروج بغاوت کو کہہ دیتے ہیں۔) یہ لوگ حد سے زیادہ نیک تھے لیکن کم عقلی کی وجہ سے اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہ سمجھتے تھے۔ انتہاء پسند تھے۔ ہر گناہ کو کفر کہتے تھے اور ہر گناہ گار کو کافر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو کافر کہہ کر اکثر قتل کرتے تھے اور کافروں کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے۔ انتہا پسندی کا نتیجہ ہمیشہ ایسا ہی نکلتا ہے، اس لیے انتہاء پسندی، تشدد اور تکلف کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے۔
(15) قتل کر دوں گا کیونکہ وہ امت مسلمہ کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کو کافر کہنے اور قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قتل ان کے شر سے بچنے کے لیے تھا نہ اس لیے کہ وہ کافر تھے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں لڑکر شکست دی۔ ہزاروں مارے گئے مگر عرصۂ دراز تک امت مسلمہ کے لیے فتنہ بنے رہے۔ معلوم ہوا، ہدایت کا معیار صرف نیکی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء راشدین کی پیروی بھی ہے جو کہ اصل دین اسلام ہے۔ اسلام کی وہی تعبیر صحیح ہے جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کی۔ اگر ان کا اتفاق ہو تو اس کی پیروی لازم ہے اور اگر ان میں اختلاف ہو تو پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
(16) خوارج صرف اس دور کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ بعد میں بھی اس ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
(17) جو شخص بھی انتہا پسند ہو، بات بات پر کفر کے فتوے لگاتا ہو، مسلمانوں کو کافر کہہ کر ان کے قتل کا قائل ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گمراہ یا بدعتی کہتا ہو اور اپنے آپ کو صحابہ سے بڑھ کر دین کا محافظ سمجھتا ہو، وہ خارجی ہے چاہے کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ و اللہ أعلم۔
(18) خارجیوں کی بابت اہل علم کے مابین شدید اختلاف ہے۔ بعض اہلِ علم انہیں کافر قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر اہلِ علم انہیں کافر نہیں بلکہ فاسق و فاجر اور بدعتی قرار دیتے ہیں۔ کافر قرار دینے والوں کی دلیل مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث ہیں کہ جن میں ان کے متعلق اس قسم کے الفاظ بیان فرمائے گئے ہیں، مثلاً: یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ، فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِّمَنْ قَتَلَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اور هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وغیرہ۔ لیکن خارجیوں کو بدعتی اور فاسق و فاجر قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ خارجی لوگ شہادَتَیْن (کلمۂ شہادت) کا اقرار کرتے ہیں اور ارکانِ اسلام پر بھی ان کی مواظبت اور ہمیشگی ہے، لہٰذا وہ کافر نہیں۔ چونکہ اہل اسلام کے متعلق ان کا نقطۂ نظر درست نہیں، اس لیے وہ مبتدع اور فاسق و فاجر ہیں۔ شاید احادیث میں ان کی بابت مذکورہ بالا قسم کے شدید الفاظ بول کر انہیں سخت تنبیہ کرنا اور راہِ مستقیم پر لانا مقصود ہو۔ و اللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4106   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169  
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔

رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔

قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔

قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔

(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4764