سنن نسائي
كتاب البيعة -- کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
21. بَابُ : بَيْعَةِ الْمَمَالِيكِ
باب: غلاموں کی بیعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4189
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ , فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ , وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ , فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْنِيهِ" , فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا , حَتَّى يَسْأَلَهُ:" أَعَبْدٌ هُوَ؟".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 23 (1602)، سنن ابی داود/البیوع 17 (3358مختصرا)، سنن الترمذی/البیوع 22 (1239)، السیر 36 (1596)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 41 (2896)، (تحفة الأشراف: 2904)، یأتي عند المؤلف في البیوع 66 (برقم4625) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: غلام اپنے مالک کا تابع ہے، تو وہ کیسے ہجرت کر سکتا ہے اس لیے آپ غلاموں سے بیعت نہیں لیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4189  
´غلاموں کی بیعت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4189]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کی بیعت ناجائز ہے۔
(2) یہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کے عظیم مکارم اخلاق اور عام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے غلام کو والپس کرنا پسند نہیں فرمایا تا کہ وہ آزردہ خاطر نہ ہو، نیز جس غرض کے لیے وہ آیا تھا اس میں بھی خلل واقع نہ ہو، چنانچہ آپ نے احسان عظیم فرماتے ہوئے اسے خرید لیا تاکہ اس کا مقصد پورا ہوجائے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ دو غلاموں کے بدلے ایک غلام کی بیع جائز ہے، خواہ قیمت ایک جیسی ہو یا قیمت کا فرق ہو۔ تمام جانوروں اور حیوانات کا حکم بھی یہی ہے۔ جمہور اہل علم اس بیع کے جواز کے قائل ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
(4) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نہ عالم الغیب تھے اور نہ آپ کو عطائی علم غیب حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس غلام کی بیعت قبول فرمالی جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر آگیا تھا۔ اسی طرح اس واقعے کے بعد آپ بیعت کی خاطر آنے والے ہر شخص سے پوچھا کرتے تھے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟
(5) رسول اﷲ ﷺ احتیاط پسند تھے، اسی لیے آپ بیعت کے لیے آنے والوں سے پوچھتے تھے۔
(6) غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ مالک کے حکم کا پابند ہوتا ہے لہٰذا غلام کا اسلام تو معبتر اور مقبول ہے مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ کی بیعت معتبر نہیں۔ ممکن ہے مالک اسے اجازت نہ دے جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کی بیعت ہجرت کی لاج رکھتے ہوئے اسے خرید لیا مگر ہر غلام کے ساتھ ایسے ممکن نہ تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4189   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2869  
´بیعت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غلام مجھے بیچ دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2869]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح آقا اس سے خدمت لینے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔

(2)
غلاموں اور مویشیوں کی خرید وفروخت تعداد میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی صورت جائز ہے مثلاً:
ایک عمدہ بھیڑ کے بدلے میں دو ادنٰی قسم کی بھیڑیں یا دو میمنے لینا یا دینا جائز ہے جبکہ زرعی اشیاء کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست نہیں مثلاً:
ایک من عمدہ گندم کا ڈیڑھ من ہلکی قسم کی گندم سے تبادلہ درست نہیں۔ (دیکھیے: سنن ابن ماجه حديث: 2252)

(3)
نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔
علم غیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2869   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1596  
´غلام کی بیعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اسے بیچ دو، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1596]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے،
اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید وفروخت بصورت نقد ہو،
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے،
کیوں کہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1596