سنن نسائي
كتاب البيعة -- کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
23. بَابُ : الْمُرْتَدِّ أَعْرَابِيًّا بَعْدَ الْهِجْرَةِ
باب: ہجرت کے بعد کسی کا اپنے گاؤں لوٹ آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4191
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، ارْتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا , وَبَدَوْتَ. قَالَ: لَا , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَذِنَ لِي فِي الْبُدُوِّ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 14 (7087)، صحیح مسلم/الإمارة 19 (1862)، (تحفة الأشراف: 4539)، مسند احمد (4/47، 54) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا بھی ہے (اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر «التعرب فی الفتنۃ» فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا کا باب باندھا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4191  
´ہجرت کے بعد کسی کا اپنے گاؤں لوٹ آنے کا بیان۔`
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4191]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت کرنے کے بعد بادیہ نشینی نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صبر اور ان کی جرأت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے جحاج کی بے ادبی پر صبر کیا، اور پھر اسے جواب بھی دیا۔ جحاج بنوامیہ کے دور کا ایک ظالم اور گستاخ گورنر تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے اس کا انداز تخاطب اس کے تکبر اور گستاخی کی واضح دلیل ہے۔ اسے اقتدار کے نشے نے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اسے اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا بلکہ لعنت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بے ادبی انسان کی خوبیوں کو چھپا دیتی ہے۔
(3) بادیہ مراد صحرائی علاقہ ہے، یعنی آبادیوں سے باہر کھلے اور آزاد علاقے۔ ان میں رہنے والے کو بدوی یا اعرابی کہتے ہیں۔
(4) حجاج کا اعتراض فضول تھا۔ کوئی شخص کسی بھی جگہ رہائش اختیار رکھ سکتا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کوئی مہاجر نہیں تھے کہ مدینہ چھوڑ کر اپنے سابقہ گھر چلے گئے ہوں اور ان پر اعتراض ہوسکے۔ بہت سے مہاجر صحابہ بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ خیر انھوں نے تو نبی ﷺ سے اجازت بھی لے رکھی تھی اور پھر وہ فوت بھی مدینہ منورہ ہی ہوئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4191