صحيح البخاري
كِتَاب الْمُكَاتِبِ -- کتاب: مکاتب کے مسائل کا بیان
2. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنْ شُرُوطِ الْمُكَاتَبِ، وَمَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ:
باب: مکاتب سے کون سی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو (وہ شرط باطل ہے)۔
حدیث نمبر: 2562
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَرَادَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً لِتُعْتِقَهَا، فَقَالَ أَهْلُهَا عَلَى أَنَّ وَلَاءَهَا لَنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک باندی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا، اس باندی کے مالکوں نے کہا کہ اس شرط پر ہم معاملہ کر سکتے ہیں کہ ولاء ہمارے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ان کی اس شرط کی وجہ سے تم نہ رکو، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2915  
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2915]
فوائد ومسائل:

آقا اور اس کی زیر ملکیت غلام کے مابین تعلق (ولاء) کہلاتا ہے۔
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہتا ہے۔
آزاد کرنے والے کو مولیٰ (معتق) (ت کے نیچے زیریعنی آزاد کرنے والا) اور آزاد شدہ کو مولیٰ (معتق) (ت پرزبر یعنی آزاد کیا ہوا) کہتے ہیں۔
اور ان کے مابین نسبت وقرابت کو ولاء کہتے ہیں۔
اور اس تعلق کو کسی طور تبدیل فروخت یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا۔


غیر شرعی شرطیں لغو محض ہوتی ہیں۔
اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2562  
2562. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2562]
حدیث حاشیہ:
حدیث بریرہ ؓ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں۔
بعض متاخرین نے ان کو چار سو تک پہنچا دیا ہے جس میں اکثر تکلف ہے۔
کچھ فوائد حافظ ؒنے فتح الباری میں بھی ذکر فرمائے ہیں۔
ان کو وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2562   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2562  
2562. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2562]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے کتاب الشروط میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب المكاتب، وما لا يحل من الشروط التي تخالف كتاب الله)
ایسی شرائط جائز نہیں جو کتاب اللہ کے خلاف ہوں۔
(صحیح البخاري، الشروط، باب: 17)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ليس في كتاب الله کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور حکم سے عام مراد ہے کہ وہ نص سے ثابت ہو یا اس سے استنباط کیا گیا ہو، البتہ وہ حکم ایسا نہ ہو جو کتاب اللہ کے خلاف ہو۔
(فتح الباري: 433/5) (2)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث بریرہ سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا، اکثر و بیشتر مسائل حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیے ہیں۔
ان مسائل و اقسام کو فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2562