سنن نسائي
كتاب البيعة -- کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
31. بَابُ : النَّصِيحَةِ لِلإِمَامِ
باب: امام اور حاکم کے لیے خیر خواہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4203
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ , وَعَامَّتِهِمْ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا: کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ اور عوام کے لیے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1326  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین (دین اسلام) وعظ و نصیحت کا نام ہے۔ تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! یہ نصیحت کا حق کس کے لیے ہے؟ فرمایا اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1326»
تخریج:
«أخرجه مسلم، الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة، حديث:55.»
تشریح:
1. اللہ کے لیے خیر خواہی کے معنی یہ ہیں کہ عقیدہ صحیح ہو کہ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کے علاوہ معبود و مالک ہی ہے۔
اور اس کی عبادت میں بھی اخلاص ہو۔
2. اس کی کتاب کے لیے خیرخواہی سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کی تصدیق کی جائے اور اس میں جو تعلیم ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
3. اس کے رسول کی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ کی رسالت و نبوت کو بصدق قلب تسلیم کیا جائے اور آپ کے حکم کی بلا چون و چرا تعمیل کی جائے اور جس کام سے آپ نے روکا ہو اس سے رکا جائے۔
4. ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی بات مانی جائے اور تھوڑی بہت سختی کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور خروج نہ کیا جائے۔
5. عام مسلمانوں کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ اچھے کاموں کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابورقیہ ہے۔
نام تمیم بن اوس بن خارجہ داری ہے۔
۹ہجری میں اسلام قبول کیا۔
بیت المقدس میں سکونت اختیار کی۔
جساسہ کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک انھوں نے پہنچائی تھی۔
ابن سیرین کا قول ہے کہ انھوں نے سارا قرآن حفظ کیا اور ایک رات میں سارا قرآن تلاوت کر لیتے تھے۔
اور ابونعیم کا قول ہے کہ تمیم وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے مساجد میں چراغ روشن کیا تھا۔
۴۰ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1326   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4944  
´نصیحت و خیر خواہی کا بیان۔`
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4944]
فوائد ومسائل:
اللہ کے لیے نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبودیت میں سرشار رہے۔
اس کی توحید کا اقرار و اظہار کرے اور شرک سے بیزار اور دور رہے۔
رسول کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کی رسالت کا اقرار و اظہار اور بے میل کی اطاعت کرے، بدعات سے بیزار اور دور رہے۔
کتاب اللہ کو اپنا دستورِ زندگی بنائے اور تمام مسائل اس کی روشنی میں سر انجام دینے کے لیے کو شاں رہے۔
حکام ِ وقت کے لیے نصیحت یہ ہے کہ خیر و خوبی کے کاموں میں ان کی اطاعت کرے اور ان کا معاون بنے۔
لوگوں کے اندر بلا وجہ ان کی مخالفت کے جذبات نہ اُبھارے اور عام مسلمانوں میں حسبِ مراتب دین ع دُنیا کے معاملات میں بھلائی سے پیش آئے یہی ان کے لیے نصیحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4944