سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح -- کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
15. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ
باب: کتے کی قیمت لینے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4299
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شَرُّ الْكَسْبِ مَهْرُ الْبَغِيِّ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ، وَكَسْبُ الْحَجَّامِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بری کمائی زانیہ عورت کی کمائی، کتے کی قیمت، اور پچھنا لگانے کی اجرت ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع30) (1568)، سنن ابی داود/البیوع 39 (3421)، سنن الترمذی/البیوع 46 (1275)، (تحفة الأشراف: 3555)، مسند احمد (3/464، 465 و4/141)، سنن الدارمی/البیوع 78 (26630) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «کسب الحجام» کے سلسلہ میں «شرالکسب» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق «شر» کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے «ثوم و بصل» (لہسن، پیاز) کو خبیث کہا جب کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ یہ پیشہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4299  
´کتے کی قیمت لینے کی ممانعت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بری کمائی زانیہ عورت کی کمائی، کتے کی قیمت، اور پچھنا لگانے کی اجرت ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4299]
اردو حاشہ:
حجام اس دور میں سنگی لگانے والے کو حجام کہتے تھے۔ چونکہ سنگی لگانے والے کو گندا خون چوسنا پڑتا ہے، اس لیے آپ نے اس پیشے کو کمائی کے لیے مناسب خیال نہیں فرمایا، کمائی کے لیے کوئی اچھا پیشہ اختیار کیا جائے۔ ہاں، ہمدردی کے طور پر سنگی لگائے تو مفت لگائے تاکہ ثواب حاصل ہو۔ جمہور اہل علم کے نزدیک حجام کی اجرت مکروہ تنزیہی ہے، حرام نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خود سنگی لگانے والے کو اجرت دی ہے۔ اگر حرام ہوتی تو آپ نہ دیتے۔ کسی مسئلے کا فیصلہ کرتے وقت متعلقہ تمام روایات کو دیکھنا ضروری ہے نہ کسی ایک کو دیکھ کر حکم لگانا درست ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4299   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3421  
´سینگی (پچھنا) لگانے والے کی اجرت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی (پچھنا) لگانے والے کی کمائی بری (غیر شریفانہ) ہے ۱؎ کتے کی قیمت ناپاک ہے اور زانیہ عورت کی کمائی ناپاک (یعنی حرام) ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3421]
فوائد ومسائل:

اس باب میں آپﷺ سے یہ منقول ہے۔
کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے۔
اسی طرح یہ بھی منقول ہے۔
کہ آپ ﷺنے پچھنے لگوا کر لگانے والے کو ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا۔
یہ بھی ہے کہ حضرت ابن محیصہ کے دادا نے ایسی کمائی کے بارے میں مسلسل سوال کیا تو آپ نے انھیں اس طرح کی کمائی اونٹ یا غلام کو کھلانے کی اجازت دی۔
پچھنے لگانے میں چونکہ ایک صورت یہ ہوتی تھی۔
کہ منہ سے مریض کا خون چوسا جاتا تھا۔
لہذا اس نسبت سے اسے خبیت یعنی نا پسندیدہ کہا گیا ہے۔
ورنہ یہ مطلقاً حرام نہیں۔
ایسا ہوتا تو آپ پچھنا لگانے والے کو خود عطا کرتے۔
نہ ایسی کمائی اونٹ یا غلام کو کھلانے ہی کی اجازت دیتے۔
یہ امکان بھی ہے۔
یہ امکان بھی ہے کہ پچھنے لگانے والے جسم سے نکلا ہوا خون فروخت کردیتے تھے۔
(نیل الأوطار: 321/5)

کتا چونکہ حرام جانور ہے۔
اس لئے اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔
البتہ بعض لوگ شکاری کتا (کلب معلم) خریدنے کی اجازت دیتے ہیں۔


زنا کاری سے حاصل شدہ آمدنی کےحرام ہونے کیا شک ہوسکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3421