سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح -- کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ
باب: شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4301
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَال: حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِيهَا؟، قَالَ:" مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كِلَابُكَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ؟، قَالَ:" وَإِنْ قَتَلْنَ"، قَالَ: أَفْتِنِي فِي قَوْسِي؟، قَالَ:" مَا رَدَّ عَلَيْكَ سَهْمُكَ فَكُلْ"، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيَّ؟، قَالَ:" وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَهْمٍ غَيْرَ سَهْمِكَ، أَوْ تَجِدْهُ قَدْ صَلَّ يَعْنِي قَدْ أَنْتَنَ". قَالَ ابْنُ سَوَاءٍ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مَالِكٍ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا: تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ۔ میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ قتل کر ڈالیں، اس نے کہا: (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا: جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ، اس نے کہا: اگر وہ (شکار تیر کھا کر) غائب ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ غائب ہو جائے، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو ۱؎۔ ابن سواء کہتے ہیں: میں نے اسے ابو مالک عبیداللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8758)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصید2(2857)، مسند احمد (2/184) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خرید و فروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4301  
´شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا: تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ قتل کر ڈالیں، اس نے کہا: (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا: جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4301]
اردو حاشہ:
(1)۔سکھلائے اور سدھائے ہوئے کتے سے شکار کرنا درست ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو شکار کتے نے مالک کے لیے پکڑا ہو اور اسے مار ڈالا ہو لیکن خود اس میں سے نہ کھایا ہو تو شکاری کتے کا مارا ہوا جانور کھایا جا سکتا ہے اگرچہ اسے ذبح نہ کیا جا سکا ہو بلکہ وہ ذبح کیے جانے سے پہلے ہی مر گیا ہو، البتہ اس میں یہ شرط ضروری ہے کہ کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہو۔
(3) یہ حدیث تیر کے ساتھ کیے ہوئے شکار اور اس کے علاوہ آلات شکار کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار حلت پر دلالت کرتی ہے بشر طیکہ شکار اس آلہ شکار کی دھار سے قتل ہوا ہو نہ کہ اس چوٹ سے۔ مزید برآں یہ بھی ضروری ہے کہ تیر وغیرہ چلاتے وقت اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔
(4) اگر شکاری شخص اپنے زخمی شکار کو چند دن بعد مردہ حالت میں پاتا ہے جبکہ اس میں ابھی بو پیدا نہ ہوئی ہو تو وہ اسے کھا سکتا ہے، البتہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس شکار کو کسی اور شکاری نے زخمی نہ کیا ہو۔ یہ اس لیے کہ اس صورت میں یہ بات معلوم ہی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے شکاری نے تیر وغیرہ چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں‘لہذا ایسے شکار کو کھانا، جو مشکوک ہو، کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟
(5) غائب ہو جائے یعنی تیر کھانے کے بعد وہ جانور بھاگ جائے اور پھر کسی اور جگہ بے جان لے تو کیا اسے کھایا جا سکتا ہے؟
(6) بدبو دار نہ ہو جائے ظاہر الفاظ سٰے معلوم ہوتا ہےکہ اسے کھایا نہیں جا سکتا حالانکہ بدبو کسی جانور یا گوشت کو حرام نہیں کرتی لیکن چونکہ بدبودار چیز میں طبی طور پر مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسے کھانا مناسب نہیں، سوائے اشد ضرورت کے ایسی چیز استعمال نہ کی جائے۔
(7) اس حدیث کا متعلقہ باب سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ اصل کتاب سے تعلق ہے۔ ممکن ہے۔ یہ باب ضمنی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4301   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2857  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نامی ایک دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس شکار کے لیے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں انہیں کھاؤ۔‏‏‏‏ ابو ثعلبہ نے کہا: خواہ میں ان کو ذبح کر سکوں یا نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‏‏‏‏ ابو ثعلبہ نے کہا: اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھا لیں۔‏‏‏‏ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2857]
فوائد ومسائل:

اس روایت میں یہ بیان کہ خواہ کتا شکا ر سے کھا بھی لے منکر ہے۔
اور اس کی توضیح پیچھے گزر چکی ہے۔


شکار شدہ جانور اگر زندہ ملے تو ذبح کیا جائے۔
اور اگر قتل ہو جائے تو حلال ہے۔


مجوسیوں کے برتن استعمال کرنے پڑیں۔
تو انہیں پہلے دھو لیا جائے۔
یہی حکم ہندوں کا ہے۔
یہودی اورعیسائی طہارت کا اہتمام کرتے ہوں۔
تو بہتر لیکن اگرشبہ ہو کہ خنزیر اور شراب وغیرہ سے احتیاط نہیں کرتے۔
تو ان کے برتن بھی استعمال کرنے سے پہلے دھونے ضروری ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2857