سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح -- کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
31. بَابُ : تَحْرِيمِ أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ
باب: پالتو گدھوں کا گوشت کھانے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4346
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ: أَنَّهُمْ غَزَوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، وَالنَّاسُ جِيَاعٌ، فَوَجَدُوا فِيهَا حُمُرًا مِنْ حُمُرِ الْإِنْسِ، فَذَبَحَ النَّاسُ مِنْهَا، فَحُدِّثَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ:" أَلَا إِنَّ لُحُومَ الْحُمُرِ الْإِنْسِ، لَا تَحِلُّ لِمَنْ يَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ (صحابہ کرام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کے لیے خیبر گئے، لوگ بھوکے تھے، انہیں وہاں گھریلو گدھوں میں سے کچھ گدھے مل گئے، لوگوں نے ان میں سے کچھ ذبح کیے۔ اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا: سنو! پالتو گدھوں کا گوشت اس شخص کے لیے حلال نہیں جو گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11866) (صحیح) (اس کے راوی ”بقیہ“ ضعیف ہیں، مگر شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی مسلمان کے لیے گدھا کا گوشت کھانا حلال نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 402  
´ کتا، بلی، شیر، چیتا، بھیڑیا، لگڑبھگا، بچھو، لومڑی، بندر اور تمام درندے حرام ہیں`
«. . . عن ابى ثعلبة الخشني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن اكل كل ذي ناب من السباع . . .»
. . . سیدنا ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے تمام درندوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 402]

تخریج الحدیث:
[و اخرجه البخاري 5530، و مسلم 1932/14، من حديث مالك به]

تفقہ
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتا، بلی، شیر، چیتا، بھیڑیا، لگڑبھگا، بچھو، لومڑی، بندر اور تمام درندے حرام ہیں۔ یہاں پر ممانعت ممانعت تحریم ہے جیسا کہ روایت یحییٰ بن یحییٰ اور حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [ح113]
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بارے میں امام مالک فرماتے ہیں «وهو الامر عندنا» اور ہمارے ہاں اسی پر عمل ہے۔ [المؤطآ 496/2] نيز ديكهئے: آنے والي حديث [113]
➌ اس حدیث کی رو سے ضبع (لگڑبھگے، بجو) کی حلت والی روایت منسوخ ہے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ «نَهَى رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ جُلُوْدِ السِّبَاعِ أَنْ تُفْرَشَ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں بچھانے سے منع فرمایا ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 1/21 وسنده حسن]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں پہننے اور ان پر سواری کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داؤد: 4131 مطولاً وسنده حسن]
اس سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا یہ قول کہ کتے کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اور اس کی جائے نماز اور ڈول بنانا درست ہے۔ غلط ہے اور یہ قول اس حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
➎ ہاتھی بھی ذوناب ہونے کی وجہ سے حرام ہے جیسا کہ حدیث [52] کے تحت گزر چکا ہے۔
➏ حدیث قرآن کی تشریح، بیان اور تفسیر ہے۔
➐ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش کرنا غلط ہے۔
➑ عام کی تخصیص دلیل کے ساتھ جائز ہے۔
➒ حدیث حجت ہے۔
➓ حدیث کا انکار کرنے والا منکر حدیث ہے، چاہے وہ اپنے آپ کو اہل قرآن اور پکا مسلم وغیرہ کیوں نہ کہتا رہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 76   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3232  
´کچلیوں والے درندوں کو کھانا حرام ہے۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ زہری کہتے ہیں کہ شام جانے سے پہلے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3232]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  کچلی نو کیلے تیز دانت کو کہتے ہیں۔
انسانوں میں یہ دانت سامنے کے چار دانتوں کے بعد اور ڈاڑھوں سے پہلے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف ہوتا ہے اوپر بھی اور نیچے بھی۔
چرندوں میں یہ دانت نہیں ہوتے۔

(2)
درندوں میں یہ دانت دوسرے دانتوں کی نسبت واضح طور پر بڑے لمبے ہوتے ہیں جیسے کتے اور بلی وغیرہ میں۔

(3)
ان دانتوں (کچلیوں)
کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ جانور درندوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ عملی طور پر شکار نہ کرتا ہو یا بہت کم کرتا ہو۔

(4)
ممکن ہے کہ کوئی حدیث صحیح ہونے کے باوجود ایک امام کو معلوم نہ ہو اس صورت میں اس کےلیے اجتہاد کرنا درست ہے۔
بعد میں اگر معلوم ہو جائے کہ یہ اجتہاد درست نہ تھا تو امام کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا تاہم بعد والوں کے لیے اس اجتہاد پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3232   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1477  
´ہر کیچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کی حرمت کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1477]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دانت (یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر،
چیتا،
بھیڑیا،
ہاتھی،
اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں،
اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مرگئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1477