سنن نسائي
كتاب الضحايا -- کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
17. بَابُ : ذَبْحِ الضَّحِيَّةِ قَبْلَ الإِمَامِ
باب: امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4401
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ:" مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ"، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ، فَذَكَرَ هَنَةً مِنْ جِيرَانِهِ، كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ، قَالَ: عِنْدِي جَذَعَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَرَخَّصَ لَهُ، فَلَا أَدْرِي أَبَلَغَتْ رُخْصَتُهُ مَنْ سِوَاهُ، أَمْ لَا، ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیادہ ہے، تو انہیں اس کی رخصت دی گئی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ رخصت دوسروں کے لیے ہے یا نہیں؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی طرف گئے اور انہیں ذبح کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1589 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4401  
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4401]
اردو حاشہ:
(1) عنوان کے ساتھ حدیث کی مناسبت بظاہر تو معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے غالباََ رسول اللہ ﷺ کے فرمان: [مَن ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ، فليُعِدِ ]  جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، وہ دوبارہ قربانی ذبح کرے۔ کو امام کے ذبح کرنے پر محمول کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم کا یہی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ امام کے ذبح کرنے سے پہلے بھی قربانی ذبح کی جا سکتی ہے بشر طیکہ نماز عید کے بعد ہو۔ ظاہراََ تو حدیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
(2) افضل یہ ہے کہ انسان اپنی قربانی کا جانور خود، اپنے ہاتھوں ہی سے ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مینڈھے خود ہی ذبح کیے تھے۔ اس پراجماع ہے، تاہم اگر کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کر دے تو قربانی جائز ہوگی۔
(3) پورے گھرانے کی طرف ایک جانور(بھیڑ، بکری، چھترا، چھتری اور مینڈھے وغیرہ) قربانی کفایت کر جاتی ہے، تا ہم دو یا زیادہ جانور ذبح کرنا افضل اور پسندیدہ عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4401   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3151  
´نماز عید سے پہلے قربانی کی ممانعت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کر لی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3151]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز سے مراد عید کی نماز ہے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا:
عیدالاضحی کے دن نبیﷺ باہر (عید گاہ میں)
تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز عید ادا فرمائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ پہلے نمازپڑھیں پھر (عیدگاہ سے)
واپس جاکر جانور ذبح کریں۔ (صحیح البخاری، العیدین، باب استقبال الإمام الناس فی خطبة العید، حدیث: 976)

(2)
عید کی نماز سے پہلے کی گئی قربانی کی حیثیت عام گوشت کی ہے۔
ایسے شخص کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔

(3)
ثواب کا دارومدار عمل کے سنت کے مطابق ہونے پر ہے۔

(4)
کوئی شخص غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کرلے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور قربان کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3151