سنن نسائي
كتاب الضحايا -- کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
23. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي نَحْرِ مَا يُذْبَحُ وَذَبْحِ مَا يُنْحَرُ
باب: ذبح والے جانور کو نحر کرنے اور نحر والے جانور کو ذبح کرنے کی اجازت۔
حدیث نمبر: 4411
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ الْعَسْقَلَانِيُّ عَسْقَلَانُ بَلْخٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ:" نَحَرْنَا فَرَسًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلْنَاهُ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا پھر ہم نے اسے کھایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 24(5510)، 27(5519)، صحیح مسلم/الصید6(1942)، سنن ابن ماجہ/الذبائح12(3190)، (تحفة الأشراف: 15746)، مسند احمد (6/345، 346، 353)، سنن الدارمی/الأضاحی22 (2035)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4425، 4426 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: گھوڑا نحر کیے جانے والے جانوروں میں سے نہیں ہے پھر بھی آپ کے سامنے نحر کیا گیا، اس سے ذبح کیے جانے والے جانورں کو نحر کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، تو اس کے برعکس سے جائز ہو گا یعنی ذبح کئے جانے والے جانورں کو نحر بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ صرف جواز کی صورت ہے، زیادہ اچھا یہی ہے کہ نحر کئے جانے والے جانورں کو پہلے نحر ہی کیا جائے، اور پھر ذبح کیا جائے اور ذبح کئے جانے والے جانوروں کو ذبح کرنا ہی افضل ہے، (ذبح کئے جانے والے جانور جیسے: بکری، دنبہ، بھیڑ، مینڈھا، مرغی، اور نحر کئے جانے والے جانور جیسے: گائے، بیل، گھوڑا اور اونٹ) نحر میں پہلے دھاردار ہتھیار سے جانور کے سینے کے اوپری حصہ کے سوراخ میں مارا جاتا ہے، جب سارا خون نکل کر جانور ساکت ہو جاتا ہے تب گرا کر ذبح کیا جاتا ہے، نحر کے ذریعہ بڑے جانور پر آسانی سے قابو پا لیا جاتا ہے اس لیے ان کے حق میں نحر مشروع ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4411  
´ذبح والے جانور کو نحر کرنے اور نحر والے جانور کو ذبح کرنے کی اجازت۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا پھر ہم نے اسے کھایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4411]
اردو حاشہ:
(1) جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں انھیں نحر اور جو نحر کیے جاتے ہیں انھیں ذبح کیا جاسکتا ہے۔
(2) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا حلال جانور ہے۔ جن لوگوں نے مکر وہ کہا ہے انھیں ٹھوکر لگی ہے، اس کی کراہت پر کوئی مستند صحیح دلیل موجود نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ الفاظ کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں اس طرح کیا، مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔ اسی طرح مِن السُّنَّةِ كذا اس طرح کرنا سنت سے ہے۔ نیز ہمیں اس طرح کرنے کا حکم دیا گیا اورہمیں اس سے روکا گیا یا ان سے ملتے جلتے مفہوم والے دوسرے الفاظ، ان کے متعلق، محد ثین کرام رحہم اللہ  کا فیصلہ یہی ہے کہ ان کا حکم مرفوع حدیث ہی کا حکم ہے۔
(3) اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے اور باقی جانوورں کو ذبح۔ ذبح کا طریقہ معروف ہے، نحر، کھڑے جانور کو گلے میں چھرا وغیرہ گھونپ کر کیا جاتا ہے۔ جب خون کافی حد تک بہہ جاتا ہے تو جانور گر پڑتا ہے، پھر اسے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اونٹ میں مسنون عمل نحرہی ہے، تاہم بوقت ضرورت ذبح میں بھی کوئی حرج ہیں۔ مذکورہ حدیث میں یا تو نحر ذبح کے معنیٰ میں ہے اور عرب لوگ اکثر ایک لفظ اس سے ملتے جلتے لفظ کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں۔ یا وہ گھوڑا قوی ہو گا اور قابو نہ آتا ہو گا، اس لیے اس کے ساتھ اونٹ والا سلوک کیا گیا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4411