صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
1. بَابُ الْوُضُوءِ قَبْلَ الْغُسْلِ:
باب: اس بارے میں کہ غسل سے پہلے وضو کر لینا چاہیے۔
حدیث نمبر: 248
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي الْمَاءِ فَيُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى جِلْدِهِ كُلِّهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں مالک نے ہشام سے خبر دی، وہ اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 104  
´غسل کرنے سے پہلے ہاتھ دھونا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا اغتسل من الجنابة يبدا فيغسل يديه ثم يفرغ بيمينه على شماله فيغسل فرجه ثم يتوضا ثم ياخذ الماء فيدخل اصابعه في اصول الشعر،‏‏‏‏ ثم حفن على راسه ثلاث حفنات،‏‏‏‏ ثم افاض على سائر جسده ثم غسل رجليه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو اس طرح آغاز کرتے۔ پہلے ہاتھ دھوتے پھر سیدھے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اپنا عضو مخصوص دھوتے۔ پھر وضو کرتے، پھر پانی لے کر اپنی انگلیوں کے ذریعہ سر کے بالوں کی تہہ (جڑوں) میں داخل کرتے۔ پھر تین چلو پانی کے بھر کر یکے بعد دیگرے سر پر ڈالتے۔ پھر باقی سارے وجود پر پانی بہاتے (سب سے آخر میں) پھر دونوں پاؤں دھوتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 104]

لغوی تشریح:
«يُفَرِغُ» «إِفُرَاغ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کہ آپ پانی ڈالتے یا انڈیلتے تھے۔
«يَغْسِلُ فَرْجَهُ» عضو مخصوص اور اس کے اردگرد کے حصے کو جو رانوں کے ساتھ ملحق ہوتا تھا دھوتے تھے جیسا کہ أبوداود میں «مَرَافِغ» کے لفظ
ہیں: «مَرَافِغ»، مرفغ کی جمع ہے، یعنی شرم گاہ کا ارد گرد۔
«فَيُدْخِلُ» یہ باب افعال ہے۔ «فَيُدْخِلُ أَصَابِعَهُ» اپنی انگلیوں کو داخل کرتے۔
«فِي أُصُوْلِ الشَّعْرِ» بالوں کی جڑوں میں اپنی انگلیوں کو دائیں اور پھر بائیں جانب داخل کرتے تاکہ بالوں کی جڑوں اور جسم کی کھال تک پانی کی تری پہنچ جائے۔
«ثُمَّ حَفَنَ» پھر دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی بھر کر ڈالتے۔
«حَفَنَاتٍ» «حَفَنَة» کی جمع ہے۔ حا اور فا دونوں پر فتحہ ہے۔ «حَفَنَة» کے معنی لپ اور چلو کے آتے ہیں، یعنی دونوں ہاتھوں کو ملا کر دونوں ہتھیلیوں کو پانی سے بھرنا۔
«ثُمَّ أَفَاضَ الْمَاءَ» پھر پانی بہاتے یا انڈیلتے، یعنی تمام جسم پر پانی بہا دیتے۔

فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث میں کچھ پہلو وضاحت طلب ہیں۔ مختلف احادیث کے ملانے سے واضح ہو جاتا ہے کہ غسل کرنے سے پہلے آپ ہاتھ دھوتے۔ اس میں تعداد کا ذکر نہیں کہ کتنی بار دھوتے۔ ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں دو یا تین بار دھونے کا ذکر ہے، پھر آپ اپنی شرمگاہ کو دھوتے، پھر ہاتھ مٹی پر مار کر ہاتھ پاک کرتے، پھر اسی طرح وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔ پھر تین مرتبہ سر کے بالوں کا خلال کرتے۔ پہلے سر کے دائیں جانب پانی کی تری جڑوں تک پہنچاتے، پھر بائیں طرف اسی طرح کرتے، پھر سارے جسم پر پانی بہاتے اور آخر میں پاؤں دھوتے۔
➋ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ پھر فارغ ہو کر ایک طرف ہو جاتے اور دونوں پاؤں دھوتے۔
➌ اسی غسل میں کیے گئے وضو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی دو سنتیں اور نماز فجر کے فرض ادا فرماتے، گویا دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت و حاجت نہیں، بشرطیکہ وضو کے بعد ہاتھ شرمگاہ کو نہ لگا ہو۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو اور غسل کے بعد چہرے، ہاتھوں اور باقی بدن پر پانی کے اثرات کو تولیے یا رومال وغیرہ سے صاف کرنا ضروری نہیں، البتہ جائز ہے کیونکہ بعض روایات میں کپڑے سے پانی خشک کرنے کا ذکر بھی آیا ہے۔
➎ وضو کے پانی کو ہاتھ سے جھاڑنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور جس روایت میں ہاتھ سے پانی جھاڑنے کی ممانعت آئی ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ صحیح حدیث کی موجودگی میں ضعیف کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 104   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 240  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، دَعَا بِشَيْءٍ مِنْ نَحْوِ الْحِلَابِ، فَأَخَذَ بِكَفَّيْهِ، فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ أَخَذَ بِكَفَّيْهِ، فَقَالَ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو ایک برتن منگواتے جیسے دودھ دوہنے کا برتن ہوتا ہے، پھر اپنے دونوں ہاتھ سے پانی لے کر سر کی داہنی جانب ڈالتے، پھر بائیں جانب ڈالتے، پھر دونوں ہاتھوں سے پانی لے کر (بیچ) سر پر ڈالتے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 240]
فوائد و مسائل:
«حلاب» کا ترجمہ دودھ کا برتن ہی راجح ہے جیسے کہ صاحب عون المعبود نے نقل کیا ہے کہ صحیح ابوعوانہ میں ابوعاصم سے اس کی تفصیل یوں وارد ہے کہ یہ ہر طرف سے، بالشت سے قدرے کم ہوتا تھا۔ بیہقی کی روایت میں اس کو کوزے کے برابر بتایا گیا ہے جس میں آٹھ رطل پانی آ سکتا ہے یعنی ڈیڑھ صاع۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 240   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 241  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ أَحَدُ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أُمِّي وَخَالَتِي عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَتْهَا إِحْدَاهُمَا: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ عِنْدَ الْغُسْلِ؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَنَحْنُ نُفِيضُ عَلَى رُءُوسِنَا خَمْسًا مِنْ أَجْلِ الضُّفُرِ . . .»
. . . قبیلہ بنو تیم اللہ بن ثعلبہ کے ایک شخص جمیع بن عمیر کہتے ہیں میں اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، تو ان میں سے ایک نے آپ سے پوچھا: آپ لوگ غسل جنابت کس طرح کرتی تھیں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے) وضو کرتے تھے جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے اور ہم اپنے سروں پر چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار پانی ڈالتے تھے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 241]
فوائد و مسائل:
➊ یہ روایت ضعیف ہے، آگے سنن ابی داود حدیث [251] میں آ رہی ہے، اس سے واضح ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح سر پر تین مرتبہ ہی پانی ڈالے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 241   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 420  
´غسل جنابت میں پہلے وضو کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر غسل کرتے، پھر ہاتھ سے اپنے بال کا خلال کرتے، یہاں تک کہ جب آپ جان لیتے کہ اپنی کھال تر کر لی ہے تو اس پر تین مرتبہ پانی بہاتے، پھر اپنے تمام جسم کو دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 420]
420۔ اردو حاشیہ:
➊ غسل جنابت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ پہلے وضو کیا جائے کیونکہ وضو غسل میں داخل ہے، البتہ اگر صرف کلی اور استنشاق کے ساتھ ساتھ سارے جسم پر پانی بہالیا جائے تو جمہور اہل علم کے نزدیک غسل پھر بھی معتبر ہو گا، گویا غسل میں ترتیب شرط نہیں۔ اسی طرح سر کے بالوں کا خلال بھی مسنون ہی ہے خصوصاً جب بال زیادہ لمبے ہوں۔ اگر سر کا چمڑا اور بال خلال کے بغیر بھی تر ہو جائیں تو غسل معتبر ہو گا۔ اسی طرح آخر میں پاؤں دھونا بھی مسنون ہے۔
➋ اس روایت میں بھی وضو سے پہلے استنجا کرنے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اس کی وضاحت دوسری روایات سے ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 420   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 244  
´برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے جنبی کے اپنے دونوں ہاتھ دھونے کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو آپ کے لیے پانی کا برتن رکھا جاتا، آپ برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالتے، یہاں تک کہ جب اپنے ہاتھ دھو لیتے تو اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کرتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے پانی ڈالتے اور بائیں سے اپنی شرمگاہ دھوتے، یہاں تک کہ جب فارغ ہو جاتے تو داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور دونوں ہاتھ دھوتے، پھر تین بار کلی کرتے، اور ناک میں پانی ڈالتے، پھر اپنے لپ بھربھر کر تین بار اپنے سر پر پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر (پانی) بہاتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 244]
244۔ اردو حاشیہ:
➊ جنبی کا ہاتھ عام طور پر پلید ہو جاتا ہے، خواہ جماع ہو یا احتلام، لہٰذا اسے برتن میں داخل کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں۔ وضو اور غسل کے دوران میں برتن سے دائیں ہاتھ کے ذریعے سے پانی لینا چاہیے، ضرورت پڑے تو دونوں ہاتھوں سے بیک وقت بھی پانی لیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 244   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 245  
´دونوں ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے انہیں کتنی بار دھویا جائے؟`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری مدنی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے متعلق پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالتے، پھر اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 245]
245۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث کچھ مختصر ہے۔ دیگر احادیث میں غسل سے پہلے پاؤں دھونے کے علاوہ مکمل وضو کا ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 249]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 245   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 247  
´جنبی کا اپنے جسم کی نجاست دور کرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو دھونے کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کا طریقہ بیان کیا، کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی نجاست دھوتے، عمر بن عبید کہتے ہیں: میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے (عطا بن سائب) کہا: آپ اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر تین بار پانی ڈالتے، پھر تین بار کلی کرتے، تین بار ناک میں پانی ڈالتے، اور تین بار اپنا چہرہ دھوتے، پھر تین بار اپنے سر پر پانی بہاتے، پھر اپنے اوپر پانی ڈالتے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 247]
247۔ اردو حاشیہ: پہلی دفعہ ہاتھ دھونا تو ہاتھوں کی صفائی کے لیے تھا تاکہ برتن کا پانی آلودہ نہ ہو۔ شرم گاہ اور رانوں کو دھونے کے بعد پھر ہاتھ دھونا وضو کا جز ہے، لہٰذا ہاتھ دوبارہ دھوئے جائیں گے۔ سب سے آخر میں پاؤں دھوئیں گے جس کا ان روایات میں ذکر نہیں، البتہ دیگر روایات میں ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 249]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 247   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 248  
´غسل سے پہلے جنبی کے وضو کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر وضو کرتے، جیسے آپ نماز کے لیے وضو کرتے تھے، پھر اپنی انگلیاں پانی میں ڈال کر ان سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 248]
248۔ اردو حاشیہ:
➊ دوسری صحیح روایات میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے پہلے وضو فرماتے، مگر پاؤں چھوڑ دیتے اور مکمل غسل کر لینے کے بعد، جس جگہ غسل کرتے، اس سے ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 257، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 317]
➋ غسل کرنے سے پہلے تین چلو ڈالنا اور سارے جسم پر کم از کم ایک مرتبہ پانی بہانا ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 248   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 249  
´جنبی کے اپنے سر کا خلال کرنے کا بیان۔`
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، وضو کرتے اور اپنے سر کا خلال کرتے یہاں تک کہ (پانی) آپ کے بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتا، پھر اپنے پورے جسم پر پانی ڈالتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 249]
249۔ اردو حاشیہ: بال بڑے ہوں تو بسا اوقات پانی بالوں پر سے پھسل جاتا ہے اور جڑیں اور چمڑا خشک رہ جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بالوں میں گیلی انگلیاں پھیری جائیں۔ اس طرح بال الگ الگ ہو جائیں گے، گنجلک نہیں رہیں گے۔ ان سے پانی گزرنا آسان ہو جائے گا، جڑیں اور چمڑا تر ہو جائے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ جہاں پانی نہ پہنچنے کا خدشہ ہو، وہاں قصداً پہنچایا جائے، ایسا نہ ہو کہ جنابت زائل نہ ہو اور غسل بے فائدہ رہ جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 249   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث574  
´غسل جنابت کا طریقہ۔`
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ہم نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالتے، پھر انہیں برتن میں داخل کرتے، پھر اپنا سر تین مرتبہ دھوتے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے، لیکن ہم عورتیں تو اپنے سر کو چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار دھوتی تھیں۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 574]
اردو حاشہ:
اس روایت میں پانچ بار سر دھونے کا جو ذکر ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ صحیح روایات میں عورت کو بھی مرد کی طرح سر پر تین مرتبہ ہی پانی ڈالنے کا حکم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 574   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:248  
248. حضرت عائشہ‬ ؓ ز‬وجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے۔ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے۔ بعد ازاں اپنی انگلیاں پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو لے کر اپنے سر پر ڈالتے۔ اس کے بعد اپنے تمام جسم پر پانی بہاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:248]
حدیث حاشیہ:

غسل چونکہ جامع طہارت ہے، اس میں طہارت استنجا بھی ہے، طہارت وضو بھی اور طہارت غسل بھی، جب یہ تمام طہارتوں کو شامل ہے تو پھر اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ امام بخاری ؒ کا مقصد غسل سے قبل وضو کی مشروعیت کو بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کی ابتدا وضو سے فرماتے تھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے غسل کی ابتدا استنجا سے کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 718 (316)
حضرت میمونہ ؓ کی ایک روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ استنجا کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور اسے خوب صاف کرتے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 722 (317)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
کسی حدیث میں (غسل جنابت کرتے وقت)
سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔
(فتح الباری: 472/1)
حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔
(سنن النسائي، الغسل والتیمم، حدیث: 422)
امام نسائی نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔
جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں جب کہ حضرت میمونہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ پاؤں غسل سے فراغت کے بعد دھوئے جائیں، ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر نہانے کی جگہ صاف ستھری ہے اور وہاں پانی نہیں ٹھہرتا تو پاؤں وضو کرتے وقت دھولیے جائیں۔
اگر پانی وہاں جمع ہو جاتا ہے تو غسل سے فراغت کے بعد انھیں دھو لیا جائے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پاؤں غسل سے فراغت کے بعد اس لیے دھوتے تھے تاکہ غسل کا افتتاح اور اختتام اعضائے وضو سے ہو۔
(فتح الباري: 470/1)
بعض حضرات نے ان دونوں روایات کو بایں طور بھی جمع کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پاؤں پہلے بھی دھولیے جائیں اور حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے پیش نظر غسل سے فراغت کے بعد بھی دھولیے جائیں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے۔

ان دونوں روایات کے پیش نظر غسل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پردے کا اہتمام کیا جائے۔
پھر دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔
بعد ازاں دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو دھویا جائے اور اس پر لگی ہوئی آلائش کو دور کیا جائے۔
پھر وضو کا اہتمام ہو، بعد میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا کر انھیں اچھی طرح ترکیا جائے۔
پھر تمام بدن پر پانی بہا لیا جائے، اگر غسل خانہ صاف ستھرا ہواور پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھوئے جائیں بصورت دیگر غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے جائیں۔
اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہو گی۔

شارحین نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔
* غسل کا وضو غسل سے پہلے ہے بعد میں نہیں جب غسل کر لیا اور طہارت حاصل ہو گئی تو بلا ضرورت غسل کے بعد وضو کرنا خلاف سنت ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الغسل، حدیث: 430)
* اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ غسل سے پہلے وضو کرنا غسل کا ایک حصہ ہے، اس کی مستقل حیثیت نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعضاء وضو کرتے وقت دھولیے ہیں انھیں دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں۔
اس کے متعلق امام بخاری ؒ آگے ایک مستقل عنوان (رقم16)
لا رہے ہیں۔
* غسل سے پہلے وضو کی کیفیت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اس کا طریقہ وضو جیسا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر جائے غسل صاف ہے اور وہاں پانی کھڑا نہیں ہوتا تو پاؤں غسل سے پہلے وضو کے ساتھ ہی دھو لیے جائیں، بصورت دیگر فراغت کے بعد وہاں سے ہٹ کر دھونا چاہیے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میمونہ ؓ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے، کیونکہ شرمگاہ کا دھونا وضو سے پہلے ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے آئندہ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے طریق میں بیان کیا ہے، وہاں پہلے ہاتھوں کا دھونا پھر استنجا کرنا، پھر زمین پر رگڑ کر انھیں صاف کرنا، اس کے بعد وضو کرنا، پاؤں دھونے کے علاوہ پھر تمام جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔
(صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 281)
اورغسل جنابت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 248