سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
24. بَابُ : تَفْسِيرِ ذَلِكَ
باب: بیع ملامسہ و منابذہ کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4514
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ عُقَيْلٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْمُلَامَسَةِ لَمْسِ الثَّوْبِ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ , وَعَنِ الْمُنَابَذَةِ وَهِيَ طَرْحُ الرَّجُلِ ثَوْبَهُ إِلَى الرَّجُلِ بِالْبَيْعِ قَبْلَ أَنْ يُقَلِّبَهُ أَوْ يَنْظُرَ إِلَيْهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کپڑے کو چھو لے اسے اندر سے دیکھے بغیر (اور بیع ہو جائے) اور منابذہ سے منع فرمایا، اور منابذہ یہ ہے کہ آدمی اپنا کپڑا دوسرے کی طرف بیع کے ساتھ پھینکے اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 63 (2144)، اللباس 20 (5820)، 21(5822)، صحیح مسلم/البیوع 1 (1512)، سنن ابی داود/البیوع 25 (3379)، (تحفة الأشراف: 4087)، مسند احمد (3/6، 59، 66، 68، 71، 95)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4518 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: دور جاہلیت میں اس طرح کپڑا چھو کر یا پھینک کر بغیر دیکھے بیع کر لیتے اور ایجاب و قبول نہ ہوتا، اس سے منع کیا گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4514  
´بیع ملامسہ و منابذہ کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کپڑے کو چھو لے اسے اندر سے دیکھے بغیر (اور بیع ہو جائے) اور منابذہ سے منع فرمایا، اور منابذہ یہ ہے کہ آدمی اپنا کپڑا دوسرے کی طرف بیع کے ساتھ پھینکے اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4514]
اردو حاشہ:
رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں اہل جاہلیت دھوکے والے سودے کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو ممنوع قرار دے دیا۔ یہ ملامسہ اور منابذہ بھی اسی قسم کے جاہلی سودے تھے جن میں صاف دھوکا ہوتا تھا، مثلاً: بیچنے والا خریدنے والے کو کہتا کہ جس کپڑے کو تمہارا ہاتھ لگ گیا، وہ اتنے میں تجھے فروخت، خواہ کسی کپڑے کو ہاتھ لگ جاتا، خواہ وہ اندر سے بالکل پھٹا ہوتا۔ صرف ہاتھ لگنے سے بیع پکی ہو جاتی تھی۔ کھول کر دیکھنے کی اجاز ت نہیں ہوتی تھی اور بعد میں وہ واپس بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے ملامسہ کہتے تھے۔ اسی طرح بیچنے والا خریدنے والے کی طرف کوئی چیز (کپڑا یا کچھ اور) پھینکتا، اتنے سے وہ سودا پکا ہو جاتا۔ اس چیز کو پرکھنے اور جانچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں وہ چیز بھی واپس نہیں ہو سکتی تھی، خواہ وہ کتنی ہی عیب دار کیوں نہ ہوتی۔ اسے منابذہ کہتے تھے۔ ظاہر ہے شریعت اس قسم کے مبہم سودے اور دھوکے بازی کو کیسے جائز قرار دے سکتی تھی، لہٰذا سختی کے ساتھ ان سے روک دیا گیا۔ منابذہ کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ خریدار کنکری پھینکتا، کنکری جس چیز پر جا گرتی، اس کا سودا ہو جاتا تھا بغیر تحقیق کیے کہ وہ چیز کیسی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4514   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2170  
´بیع منابذہ اور ملامسہ کی ممانعت۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ و منابذہ سے منع کیا ہے۔ سہل نے اتنا مزید کہا ہے کہ سفیان نے کہا کہ ملامسہ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہاتھ سے چھوئے اور اسے دیکھے نہیں، (اور بیع ہو جائے) اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے کہے کہ جو تیرے پاس ہے میری طرف پھینک دے، اور جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینکتا ہوں (اور بیع ہو جائے)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2170]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  چیز خریدتے وقت خریدار کو حق حاصل ہے کہ پہلے چیز کو اچھی طرح دیکھ بھال لے، اور چیک کے لے تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ چیز اچھی ہے یا بری، نیز اس میں کوئی عیب وغیرہ تو نہیں، اور اگر ہے تو کس حد تک، تاکہ اس کے مطابق وہ فیصلہ کرے کہ اسے فلاں قیمت تک خرید لینا مناسب ہے۔

(2)
  جس بیع میں خریدار کا یہ حق سلب کر لیا جائے وہ بیع ناجائز اور غیر قانونی ہے۔

(3)
  لاٹری اور اس قسم کی انعامی سکیمیں جن میں یقین نہ ہو کہ کیا ملے گا، سب غیر شرعی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2170