سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
27. بَابُ : بَيْعِ الْحَصَاةِ
باب: کنکری پھینک کر بیع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4522
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزِّنَادِ , عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 2 (1513)، سنن ابی داود/البیوع 25 (3376)، سنن الترمذی/البیوع 17 (1230)، سنن ابن ماجہ/التجارات 23 (2194)، مسند احمد (2/250، 436، 376، 439، 496، سنن الدارمی/البیوع 20 (2596) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کنکری کی بیع کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کہے: میں تمہاری طرف جب کنکری پھینک دوں تو بیع ہو گئی، یہ ممنوع اس لیے ہے کہ کنکری پھینکنے تک کی جو مدت بیع کے اثبات کے لیے رکھی گئی ہے وہ مجہول ہے، یا پھر یوں کہے کہ میں کنکری پھینکتا ہوں جس مال پر کنکری گرے وہی بیچنا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ اس صورت میں بھی مال مجہول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4522  
´کنکری پھینک کر بیع کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4522]
اردو حاشہ:
(1) بَیْعِ الْحِصَاۃِ، لفظ بَیْعٌ، بَاعَ یَبِیْعُ کا مصدر ہے اور اَلْحَصَاۃُ جمع ہے اَلْحَصٰی کی۔ یہ مصدر کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہرگز نہیں بلکہ مصدر کی اضافت نوع کی طرف ہے، اس لیے باب کے معنیٰ ہیں: کنکریوں والی بیع اس کی کئی صورتیں ہوا کرتی تھیں، مثلاً: بائع مشتری سے کہتا کہ تو کنکری مار، وہ جس کپڑے کو یا دوسری اشیاء، جو وہ بیچنا چاہتا، کو کنکری جا لگے گی تو اتنی رقم میں وہ چیز تیری۔ اس میں نہ تو واپسی کا کوئی اختیار ہوتا اور نہ خیارِ مجلس ہی ہوتا اور نہ کپڑے وغیرہ کے کسی نقص اور عیب کی بابت کچھ معلوم ہوتا، اس لیے یہ بیع دراصل غرر اور دھوکے ہی کی بیع تھی جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ ایک صورت یہ ہوتی کہ بائع مشتری سے کہتا کہ کنکری پھینکو جہاں تک وہ پہنچے گی وہاں تک اپنی زمین تجھے اتنی رقم کے عوض بیچوں گا۔ یہ مجہول چیز کی بیع ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ یہ صورت بھی ہوتی تھی کہ بیچنے والا شخص مٹھی میں کنکریاں بند کر لیتا اور کہتا کہ جتنی کنکریاں میری مٹھی سے نکلیں گی، اتنی چیزیں مبیع سے میری ہوں گی۔ یا وہ کوئی سودا فروخت کرتا اور کنکریاں مٹھی میں بند کر کے کہتا کہ میری مٹھی میں جتنی کنکریاں ہوں گی اتنے ہی درہم یا دینار لوں گا، یعنی جو بھی طے ہوتا۔ کبھی وہ لوگ اس طرح بھی کیا کرتے کہ خرید و فروخت کرنے والوں میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیتا اور کہتا کہ جب بھی کنکریاں گریں گی، بیع واجب ہو جائے گی۔ کبھی وہ لوگ سودا کرتے اور کنکری پھینکنے ہی کو بیع کا واجب ہونا قرار دیتے۔ یہ تمام اقوال امام نووی اور امام ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ نے (شرح صحیح مسلم، البیوع، باب بطلان بیع الحصاة و البیع الذی فیه الغرر: 10/220 میں) بیان فرمائے ہیں۔
(2) حدیث کے آخر میں ہر دھوکے والی بیع سے منع کر دیا گیا ہے، مثلاً: پانی کے اندر موجود مچھلی یا فضا کے اندر اڑتے پرندے کی بیع جسے ابھی تک شکار نہیں کیا گیا۔ اللہ جانے وہ شکار ہو سکے یا نہ، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کی بیع۔ نہ معلوم وہ مل سکے یا نہ۔ جو چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی، اس کی بیع بھی اسی کے تحت آتی ہے وغیرہ وغیرہ، البتہ اگر تھوڑا بہت ابہام ہو جس سے بچنا ممکن نہیں تو اس کی گنجائش ہے، مثلاً: ماہانہ یا یومیہ کرائے پر کوئی چیز لینا، حالانکہ سب مہینے، اسی طرح سب دن برابر نہیں ہوتے۔ ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ مجبوری ہے، لہٰذا بلاتکلف جائز ہے، نیز ان میں دھوکا دہی کا تصور نہیں جو کہ منع کی اصل بنیاد ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4522   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1230  
´بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1230]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیع غرر:
معدوم ومجہول کی بیع ہے،
یاایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1230   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3376  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ کی بیع سے روکا ہے۔ عثمان راوی نے اس حدیث میں «والحصاة» کا لفظ بڑھایا ہے یعنی کنکری پھینک کر بھی بیع کرنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3376]
فوائد ومسائل:
(بیع الحصاۃ) کنکری پھینک کر بیع کرنا یعنی خریدار یا فروخت کرنے والا کہے کہ جب میں کنکری پھینک دوں گا تو بیع پختہ ہوجائے گی۔
یا جس چیز پر کنکری پڑی وہ دے دوں گا یا لے لوںگا خریدوفروخت کا یہ انداز ممنوع ہے۔
آج کل بھی ایسا جوا رائج ہے۔
کہ آپ کا نشانہ جس چیز پر لگ جائے گا۔
اتنی قیمت میں وہ آپ کی ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3376