سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
28. بَابُ : بَيْعِ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهُ
باب: پھلوں کو پختگی ظاہر ہونے سے پہلے نہ بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4527
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ , وَالْمُزَابَنَةِ , وَالْمُحَاقَلَةِ , وَأَنْ يُبَاعَ الثَّمَرُ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ , وَأَنْ لَا يُبَاعَ إِلَّا بِالدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ , وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ سے، اور پکنے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا، اور پھلوں کو درہم و دینار کے سوا کسی اور چیز کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، اور بیع عرایا میں رخصت دی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3910 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «مخابرہ»: بیل میں لگی ہوئی انگور کو کشمش (توڑی ہوئی خشک انگور) سے بیچنا، یا کھیت کو اس طرح بٹائی پر دینا کہ پیداوار کٹنے کے وقت کھیت کا مالک یہ کہے کہ فلاں حصے میں جو پیداوار ہے وہ میں لوں گا، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک ہی کھیت کے مختلف حصوں میں مختلف انداز سے اچھی یا خراب پیداوار ہوتی ہے، اور کھیت کا مالک اچھی والی پیداوار لینا چاہتا ہے، یہ جھگڑے فساد یا دوسرے فریق کے نقصان کا سبب ہے، اس لیے بٹائی کے اس معاملہ سے روکا گیا، ہاں مطلق پیداوار کے آدھے یا تہائی پر بٹائی کا معاملہ صحیح ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں کیا تھا۔ ۲؎ «مزابنہ»: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے معینہ مقدار سے بیچنے کو «مزابنہ» کہتے ہیں۔ «محاقلہ»: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ «عرایا»: «عرایا» یہ ہے کہ باغ کا مالک ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لیے مفت دیدے اور باغ کے اندر اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خرید لے اور اس کے بدلے تازہ تر یا خشک کھجور اس کے حوالے کر دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1290  
´بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1290]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(1224)

2؎:
مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا،
یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں،
بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے،
ایسا کرنے سے منع کیا گیاہے،
کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والا تباہ ہوجاتا ہے،
اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے،
اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے،
اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔

3؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔
اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3375  
´کئی سال کے لیے پھل بیچ دینا منع ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاومہ (کئی سالوں کے لیے درخت کا پھل بیچنے) سے روکا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان میں سے ایک (یعنی ابو الزبیر) نے (معاومہ کی جگہ) «بيع السنين» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3375]
فوائد ومسائل:

کسی باغ یا مخصوص درختوں کے پھل کوکئی سالوں کےلئے پیشگی فروخت کرنا منع ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں کہ ان پر پھل آئے گا بھی یا نہیں۔
کم آئے گا یا زیادہ۔
لیکن بیع سلم (یا سلف) مختلف بیع ہے۔
اس میں خریدار بائع کو پیشگی رقم ادا کر دیتا ہے۔
کہ موسم آنے پر فلاں پھل یا فلاں جنس اس معیارکی اتنی مقدار میں مہیا کرنا ہوگی تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ کسی خاص کھیت یا خاص درخت یا باغ کی پیداوار کا سودا نہیں ہوتا۔
بلکہ ایک خاص معیار کی جنس یا پھل کا سودا ہوتا ہے۔
جو کہیں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔


اس وقت جو سودے ہوچکے تھے۔
اور آفات کی جگہ سے پیداوار میں نقصان ہوا تھا اس کی تلافی کرائی گئی اور آئندہ کےلئے پھل وغیرہ قابل استعمال ہونے کے بعد بیع کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3375