سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
44. بَابُ : بَيْعِ الشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ
باب: جَو کے بدلے جَو بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4570
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , قَالَ: قَالَ إِسْمَاعِيل: حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ جَابِرٍ. ح وَأَنْبَأَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ إِسْمَاعِيل , قَالَ: حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ جَابِرٍ , عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الذَّهَبُ الْكِفَّةُ بِالْكِفَّةِ" , وَلَمْ يَذْكُرْ يَعْقُوبُ: الْكِفَّةُ بِالْكِفَّةِ , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: إِنَّ هَذَا لَا يَقُولُ شَيْئًا , قَالَ عُبَادَةُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَكُونَ بِأَرْضٍ يَكُونُ بِهَا مُعَاوِيَةُ , إِنِّي أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سونا ایک پلڑا دوسرے پلڑے کے برابر ہو، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات تو میرے سمجھ میں نہیں آتی، تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے پروا نہیں اگر میں اس سر زمین میں نہ رہوں جہاں معاویہ رضی اللہ عنہ رہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5084)، مسند احمد (5/319) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4570  
´جَو کے بدلے جَو بیچنے کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سونا ایک پلڑا دوسرے پلڑے کے برابر ہو، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات تو میرے سمجھ میں نہیں آتی، تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے پروا نہیں اگر میں اس سر زمین میں نہ رہوں جہاں معاویہ رضی اللہ عنہ رہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4570]
اردو حاشہ:
معتبر بات نہیں کہہ رہے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اپنے علم کے مطابق کہی لیکن چونکہ انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اظہار ناراضی فرمایا۔ اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَأَرْضَاھُمْ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4570   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
(1)
سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔
البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔
اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔
مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔

(2)
حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔
تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔
اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔
اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔

(3)
صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔

(4)
جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 18