سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
50. بَابُ : بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالذَّهَبِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ
باب: چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4585
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ , يَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ هَذَا الَّذِي تَقُولُ , أَشَيْئًا وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , أَوْ شَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَ: مَا وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَلَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنِي , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ جو یہ باتیں کہتے ہیں، کیا آپ نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ تو میں نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے اور نہ ہی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، لیکن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود تو صرف ادھار میں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (لیکن یہ حکم منسوخ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4585  
´چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ جو یہ باتیں کہتے ہیں، کیا آپ نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ تو میں نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے اور نہ ہی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، لیکن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود تو صرف ادھار میں ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4585]
اردو حاشہ:
(1) چاندی کو سونے کے عوض یا سونے کو چاندی کے عوض خریدا بیچا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین (دونوں) کی طرف سے نقد ادائیگی ہو۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو، دینی مسئلے کی بابت دوسرے عالم دین سے دلیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عالم دین سے معلوم کرے کہ آپ نے جو مسئلہ بیان فرمایا ہے یہ قرآن مجید میں ہے یا حدیث رسول سے ثابت ہے (کیونکہ احکام شریعت کا اصل ماخذ قرآن وسنت ہے)۔ مزید برآں مسئول عنہ (جس سے ایسا سوال کیا جائے) کو اس قسم کے سوال، یعنی دلیل طلب کرنے کو اپنی شان میں گستاخی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بلا تاخیر جواب دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے اسامہ بن زیدؓ نے یہ خبر دی ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اجتماعیت سے ہٹے ہوئے شخص کو اجتماعیت کی طرف لائے اور یہ فریضہ کتاب وسنت کے دلائل کے ذریعے سے سرانجام دیا جانا چاہیے۔
(4) یہ جو آپ کہہ رہے ہیں دراصل حضرت ابن عباسؓ کو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت سے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے کم و بیش بھی خریدا بیچا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ادھار نہ ہو، حالانکہ یہ حدیث ایک مخصوص صورت کے بارے میں ہے، یعنی جب طرفین کی جنس مختلف ہو، مثلاً: چاندی سونے کے بدلے ہو جیسا کہ اس کی طرف اوپر والی حدیث(4584) میں اشارہ ہو چکا ہے۔ کسی ایک روایت سے ایسے معنیٰ اخذ نہیں کیے جا سکتے جو دیگر صریح، مفصل اور کثیر روایات کے خلاف ہوں۔ بعض احادیث مختصر ہوتی ہیں۔ ان کے معنیٰ سمجھنے کے لیے دیگر تفصیلی روایات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4585