سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
54. بَابُ : الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ
باب: جھکتا ہوا تولنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4596
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ , قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ , فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنًى وَوَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ , فَاشْتَرَى مِنَّا سَرَاوِيلَ , فَقَالَ لِلْوَزَّانِ:" زِنْ وَأَرْجِحْ".
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی رضی اللہ عنہ مقام ہجر سے کپڑا لائے، ہم منیٰ میں تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، وہاں ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تول رہا تھا، تو آپ نے ہم سے پاجامہ خریدا اور تولنے والے سے فرمایا: جھکتا ہوا تولو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 7 (3336)، سنن الترمذی/البیوع 66(1305)، سنن ابن ماجہ/التجارات 34(2220)، اللباس 12 (3579)، (تحفة الأشراف: 4810)، مسند احمد (4/352)، سنن الدارمی/البیوع 47 (2627) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4596  
´جھکتا ہوا تولنے کا بیان۔`
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی رضی اللہ عنہ مقام ہجر سے کپڑا لائے، ہم منیٰ میں تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، وہاں ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تول رہا تھا، تو آپ نے ہم سے پاجامہ خریدا اور تولنے والے سے فرمایا: جھکتا ہوا تولو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4596]
اردو حاشہ:
(1) سودا دیتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دینا چاہیے، یعنی تولتے وقت ترازو جھکتا ہونا چاہیے۔ باہمی خیر خواہی، ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے چہ جائیکہ ڈنڈی ماری جائے، یہ حرام ہے۔ اس طرح برکت اٹھ جاتی ہے۔ أعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْه۔
(2) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے اور یہ حلال روزی کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے، نیز دوسرے ممالک سے مال منگوانے کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی درآمد و برآمد کا کاروبار، شرعاً درست ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ جس طرح جھکتا تول کر دینے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح کم تول کر دینے کی کراہت اور اس کے غیر مشروع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس طرح انسان کی حق تلفی ہوتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔
(4) اجرت پر تول رہا تھا۔ یعنی قیمت میں سونا چاندی تول رہا تھا اور وہ تولنے کے پیسے لیتا تھا۔ اس سے خریدار کو ادائیگی کی سہولت ہوتی تھی کیونکہ قیمت کا تول خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامانِ فروخت کا تول بیچنے والے کے ذمے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ تولنے والا قیمت تول تول کر لے رہا تھا۔ اس صورت میں بیچنے والوں نے اسے مقرر کیا ہوگا۔
(5) شلوار خریدی ظاہر ہے پہننے کے لیے خریدی ہوگی، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کے کسی اور فرد کے لیے خریدی ہو۔ آپ سے شلوار کی تعریف ثابت ہے کہ یہ پردے والا لباس ہے۔
(6) جھکا کر دے تاکہ کمی کا احتمال نہ رہے۔ اور یہ حکم وزن کے علاوہ ماپ اور پیمائش میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ دینے والے کو چاہیے کہ ان میں بھی کچھ زائد ہی دے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4596   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2220  
´وزن کے وقت پلڑا جھکا کر (زیادہ) تولنے کا بیان۔`
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی رضی اللہ عنہ دونوں ہجر سے کپڑا لائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے ہم سے پاجاموں کا مول بھاؤ کیا، ہمارے پاس ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: او تولنے والے! تولو اور پلڑا جھکا کر تولو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2220]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے۔

(2)
درآمد برآمد کا کاروبار جائز ہے۔

(3)
شلوار ایک اچھا لباس ہے۔

(4)
ماپنے تولنے کی اجرت لینا جائز ہے، اور اس طرح ہر وہ کام جس میں جسمانی محنت ہو اور وہ شرعی لحاظ سے جائز ہو، اس کی مزدوری لینا درست ہے۔

(5)
تولتے وقت جھکتا تولنا حسن اخلاق میں شامل ہے۔
لیکن کم تول کر دینا بددیانتی اور کبیرہ گناہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2220