سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
55. بَابُ : بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى
باب: اپنی ملکیت اور قبضہ میں لینے سے پہلے غلہ بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4599
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 51 (2126)، 54(2135)، 55 (2136)، صحیح مسلم/البیوع 8 (1526)، سنن ابی داود/البیوع 67 (3492)، سنن ابن ماجہ/التجارات 37 (2226)، (تحفة الأشراف: 8327)، موطا امام مالک/البیوع 19 (40)، مسند احمد (1/56، 62)، سنن الدارمی/البیوع 25 (2602) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: خرید و فروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز کو خریدار جب تک بیچنے والے سے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے دوسرے سے نہ بیچے، اور یہ تحویل و تملک اور قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہو گا، نیز اس سلسلے میں ہر علاقہ کے عرف (رسم رواج) کا اعتبار بھی ہو گا کہ وہاں کس چیز پر کیسے قبضہ مانا جاتا ہے، البتہ منقولہ چیزوں کے سلسلے میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو بیچنے والے کی جگہ سے خریدار اپنی جگہ میں منتقل کر لے، یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے، اور اندازہ والی چیز کی جگہ بدل لے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499  
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4599  
´اپنی ملکیت اور قبضہ میں لینے سے پہلے غلہ بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4599]
اردو حاشہ:
(1) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور حرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔
(2) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔
(3) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تولا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4599   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229  
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔

(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3494