سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
59. بَابُ : الرَّهْنِ فِي الْحَضَرِ
باب: حضر (حالت اقامت) میں (کسی چیز کے) گروی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4614
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّهُ مَشَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ , قَالَ:" وَلَقَدْ رَهَنَ دِرْعًا لَهُ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِالْمَدِينَةِ , وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِيرًا لِأَهْلِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی ایک روٹی اور بودار چربی لے گئے، اور آپ نے اپنی زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی تھی اور اپنے گھر والوں کے لیے اس سے جَو لیے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 14 (2069)، الرہون 1 (2508)، سنن الترمذی/البیوع 7 (1215)، سنن ابن ماجہ/الرہون 1 (الأحکام62) (2437)، (تحفہ الأشراف: 1355)، مسند احمد (3/133، 208، 232) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4614  
´حضر (حالت اقامت) میں (کسی چیز کے) گروی رکھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی ایک روٹی اور بودار چربی لے گئے، اور آپ نے اپنی زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی تھی اور اپنے گھر والوں کے لیے اس سے جَو لیے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4614]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ حدیث میں مقررہ مدت تک چیز ادھار لینے کے عوض گروی چیز کی مشروعیت کا بیان ہے، یعنی کوئی چیز گروی میں دینا جائز ہے۔ لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ اگر گروی رکھی ہوئی چیز پر کسی قسم کو خرچہ نہیں آ رہا تو اس سے فائدہ اٹھانا درست نہیں بلکہ اس کی حیثیت امانت کی سی ہوگی جب ادھار چکا دیا جائے گا، چیز اصل مالک کو، اصلی حالت میں واپس ہو جائے گی۔
(2) کافروں کے ساتھ معاملات اور خرید و فروخت کرنا (جبکہ وہ حربی نہ ہوں) جائز ہے بشرطیکہ وہ اصل چیز جس کا معاملہ کیا جا رہا ہے، شرعاََ نا جائز اور حرام نہ ہو، نیز معاملہ کرنے میں کسی قسم کے شر فساد کا خطرہ بھی نہ ہو بالخصوص میل جول کے نتیجے میں اسلامی عقیدے پر قطعاََ کوئی زد نہ پڑتی ہو، ورنہ ہر قسم کا معاملہ کرنا حرام اور ناجائز ہو گا۔ یہی حکم ذمیوں کے ساتھ معاملات کرنے کا ہے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذمیوں کے مال ان کے ہاتھ اور قبضے میں ہونے چاہئیں، یعنی اسلامی حکومت میں ان کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے گا۔
(4) ادھار کا لین دین اور خرید و فروخت جائز ہے۔ شرعاََ اس میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ دینی تقاضے مجروح نہ کیے جائیں۔
(5) جنگی ہتھیار اپنے پاس رکھنا اور ان کی اعلیٰ پیمانے تیاری بالکل درست عمل ہے۔ یہ توکل علی اللہ کے منافی نہیں، جیسے جدید ترین میزائل، ایٹم بم اور دیگر آلات حرب کی تیاری۔
(6) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی تواضع، زہد اور آپ کی ازواج مطہرات ؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے عظمت و عریمت کی راہ اختیار کی اور ہر قسم کی مشکلات پر صبر و شکر کیا آپ ﷺ کا ساتھ خوب خوب نبھایا۔
(7) یہ زرہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے غلے کی قیمت دے کر یہودی سے واپس لی۔
(8) حضرت انس رضی اللہ عنہ کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی سادگی اور تنگ حالی بیان کرنا ہے مگر یہ تنگ حالی آپ نے خود اپنے آپ پر طاری کر رکھی تھی تا کہ آپ اپنے رب کے لیے صبر و شکر کر سکیں۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ باوجود سال بھر کا غلہ رکھنے کے اس کو فقراء و مساکین پر سخاوت کر دیتے تھے اور خود تنگی و ترشی سے گزارا کیا کرتے تھے۔ اللهم صل على محمد و آل محمد۔
(9) باسی چربی یعنی وہ پرانی چربی تھیْ اس کا ذائقہ یا بو کچھ حد تک بدل چکی تھی۔ یہ نہیں کہ اس سے بدبو آتی تھی کیونکہ ایسی چیز استعمال کرنا تو شرعاََ بھی منع ہے  اور طبی طور پر بھی۔ فطرت سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ تو انتہائی نفیس اور پاکیزہ شخصیت تھے۔
(10) باب کا مقصد ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے کہ شاید گروی کے جواز کے لیے سفر میں ہونا شرط ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ گروی کے لیے سفر شرط نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4614