سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
66. بَابُ : بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ يَدًا بِيَدٍ مُتَفَاضِلاً
باب: ذی روح کو ذی روح کے بدلے کمی زیادتی کے ساتھ نقد بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4625
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ , وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ , فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْنِيهِ" , فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ , ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّى يَسْأَلَهُ أَعَبْدٌ هُوَ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے، اتنے میں اسے ڈھونڈتا ہوا اس کا مالک آ پہنچا تو آپ نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے اس کے بعد کسی سے بیعت نہیں لی جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے؟۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4189 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4625  
´ذی روح کو ذی روح کے بدلے کمی زیادتی کے ساتھ نقد بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے، اتنے میں اسے ڈھونڈتا ہوا اس کا مالک آ پہنچا تو آپ نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے اس کے بعد کسی سے بیعت نہیں لی جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے؟۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4625]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کے مکارم اخلاق اور آپ کے احسان عظیم پر واضح دلالت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے غلام واپس نہ کیا، حالانکہ اس کا مالک پہنچ گیا۔ آپ نے غلام کا مقصد، یعنی ارادۂ ہجرت پورا فرما دیا۔ اسے اپنی رفاقت میں رہنے سے محروم نہ کیا اور دو غلاموں کے بدلے اسے خرید لیا۔
(2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ایک غلام کی دو غلاموں کے عوض بیع (خرید و فروخت) جائز ہے، خواہ ان کی قیمت ایک جیسی ہو یا مختلف۔ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بیع نقد ہو۔ دونوں طرف سے ادھار نہ ہو۔ تمام حیوانات کا یہی حکم ہے، چاہے ایک غلام دو غلاموں کے عوض ہو یا ایک اونٹ دو کے بدلے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں اصل حریت اور آزادی ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آنے والے غلام سے رسول اللہ ﷺ نے اس کے آزاد یا غلام ہونے کی بابت نہیں پوچھا بلکہ مذکورہ اصول کے مطابق بیعت فرما لی۔
(4) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی بھی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علمِ غیب ہرگز نہیں تھا۔ اگر آپ کو غیب کا علم ہوتا تو فورََا معلوم ہو جاتا کہ آنے والا شخص غلام ہے، نیز یہ بھی ضرور معلوم ہو جاتا کہ اس کا مالک بھی اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ آپ آئندہ بھی بیعت کے لیے آنے والے کسی شخص سے نہ پوچھتے کہ تو آزاد ہے یا غلام؟ رسول اللہ ﷺ کو صرف اس بات کا علم ہوتا جو آپ کو اللہ تعالیٰ بتا دیتا تھا۔
(5) معلوم ہوا حیوانات کی باہمی خریداری اور تبادلے میں کمی بیشی جائز ہے کیونکہ حیوانات کی حیثیت میں بسا اوقات فرق ہوتا ہے، گویا وہ الگ الگ جنس ہیں اور جب جنسیں مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔ ایک اونٹ پندرہ ہزار کا مل سکتا ہے تو ایک اونٹ کئی لاکھ کا بھی ملتا ہے، لہٰذا جانوروں کو یوں سمجھا گیا جیسے وہ الگ الگ جنس کے ہوں۔ شریعت اپنے احکام میں لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے، خواہ کوئی فرعی اصول بدلنا پڑے، عدم حرج بنیادی اصول ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4625   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2869  
´بیعت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غلام مجھے بیچ دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2869]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح آقا اس سے خدمت لینے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔

(2)
غلاموں اور مویشیوں کی خرید وفروخت تعداد میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی صورت جائز ہے مثلاً:
ایک عمدہ بھیڑ کے بدلے میں دو ادنٰی قسم کی بھیڑیں یا دو میمنے لینا یا دینا جائز ہے جبکہ زرعی اشیاء کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست نہیں مثلاً:
ایک من عمدہ گندم کا ڈیڑھ من ہلکی قسم کی گندم سے تبادلہ درست نہیں۔ (دیکھیے: سنن ابن ماجه حديث: 2252)

(3)
نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔
علم غیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2869   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1596  
´غلام کی بیعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اسے بیچ دو، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1596]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے،
اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید وفروخت بصورت نقد ہو،
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے،
کیوں کہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1596