سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
77. بَابُ : الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ
باب: بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔
حدیث نمبر: 4643
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , وَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ , فَقَالَ:" مَا لَكَ فِي آخِرِ النَّاسِ؟" , قُلْتُ: أَعْيَا بَعِيرِي فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ ثُمَّ زَجَرَهُ , فَإِنْ كُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ , قَالَ:" مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ؟" , قُلْتُ: لَا , بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" لَا , بَلْ بِعْنِيهِ" , قُلْتُ: لَا , بَلْ هُوَ لَكَ , قَالَ:" لَا , بَلْ بِعْنِيهِ , قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْكَبْهُ , فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ فَأْتِنَا بِهِ" , فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ , فَقَالَ لِبِلَالٍ:" يَا بِلَالُ , زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً , وَزِدْهُ قِيرَاطًا" , قُلْتُ: هَذَا شَيْءٌ زَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُفَارِقْنِي , فَجَعَلْتُهُ فِي كِيسٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّى جَاءَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ , فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لیے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹ کا کیا ہوا؟ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: نہیں، اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے کہا: نہیں، بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے اسے ایک اوقیہ میں لے لیا، تم اس پر سوار ہو اور جب مدینہ پہنچ جاؤ تو اسے ہمارے پاس لے آنا، جب میں مدینے پہنچا تو اسے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بلال! انہیں ایک اوقیہ (چاندی) دے دو اور ایک قیراط مزید دے دو، میں نے عرض کیا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیادہ دیا ہے، (یہ سوچ کر کہ) وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو، تو میں نے اسے ایک تھیلی میں رکھا، پھر وہ قیراط میرے پاس برابر رہا یہاں تک کہ حرہ کے دن ۱؎ اہل شام آئے اور ہم سے لوٹ لے گئے جو لے گئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 4 (2718 تعلیقًا)، صحیح مسلم/البیوع 42 (715)، (تحفة الأشراف: 2243)، مسند احمد (3/314) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ ۶۳؁ھ میں پیش آیا تھا، اس میں یزید کے لشکر نے مدینے پر چڑھائی کی تھی۔ حرہ کالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں جو مدینے کے مشرقی اور مغربی علاقہ کی زمین ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4643  
´بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لیے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4643]
اردو حاشہ:
(1) قیراط دینار کا بیسواں حصہ یا جدیدد اعشاری نظام کے مطابق 1۔255 ملی گرام کا ہوتا ہے۔
(2) جدا نہیں ہو گا رسول اللہ ﷺ کا تبرک تھا۔
(3) حرہ والے دن یہ یزید کے دور کی بات ہے۔ مدینے والوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد یزید کی بیعت توڑ دی تھی۔ یزید نے سزا دینے کے لیے شام سے لشکر بھیجا۔ اہل مدینہ سے حرہ کے پتھریلے میدان میں لڑائی ہوئی۔ مدینے والوں کو شکست ہوئی۔ شامی لشکر نے خوب خون ریزی کی۔ اور مدینہ منورہ میں لوٹ مار کی۔ صحابہ تک کی توہین کی۔ اسی غدر میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی ان وحشیوں نے وہ تبرک لوٹ لیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4643   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048