سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
100. بَابُ : مَطْلِ الْغَنِيِّ
باب: قرض کی ادائیگی میں مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
حدیث نمبر: 4694
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَبْرُ بْنُ أَبِي دُلَيْلَةَ الطَّائِفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَيْمُونِ ابْنِ مُسَيْكَةَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ".
شرید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کے ٹال مٹول کرنے سے اس کی عزت اور اس کی سزا حلال ہو جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2427  
´قرض کی وجہ سے قید کرنے اور قرض دار کو پکڑے رہنے کا بیان۔`
شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قرض ادا کر سکتا ہو اس کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے، اور اس کو سزا (عقوبت) پہنچانا جائز ہو جاتا ہے۔‏‏‏‏ علی طنافسی کہتے ہیں: عزت حلال ہونے کا مطلب ہے کہ قرض خواہ اس کے نادہند ہونے کی شکایت لوگوں سے کر سکتا ہے، اور عقوبت پہنچانے کے معنیٰ اس کو قید میں ڈال دینے کے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2427]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض بروقت ادا کرنا ضروری ہے۔

(2)
  اگر مقروض وقت پر قرض ادا نہ کرے تو اس کے خلاف حکمران یا قاضی سےشکایت کی جا سکتی ہے۔
حاکم اورقاضی کا فرض ہے کہ حق وارکواس کا حق دلوائیں۔

(3)
اگر مقروض واقعی قرض ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے مزید مہلت دی جائے یا قرض معاف کردیا جائے یا بیت المال سےاس کی مدد جائے۔
بیت المال کا نظام موجود نہ ہونے کی صورت میں دوسرے لوگوں کا فرض ہےکہ زکاۃ وصدقات کےذریعے سےاس کی مدد کریں۔

(4)
  جن جرائم میں حد نہیں ان میں مجرم کوتعزیر کے طور پرقید کی سزا جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2427