سنن نسائي
كتاب البيوع -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
109. بَابُ : ذِكْرِ الشُّفْعَةِ وَأَحْكَامِهَا
باب: شفعہ اور اس کے احکام کا بیان۔
حدیث نمبر: 4706
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ".
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشفعة 2 (2258)، الحیل14(6977)، 15(6978)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3516)، سنن ابن ماجہ/الشفعة 3 (الأحکام 87) (2498)، (تحفة الأشراف: 12027)، مسند احمد (6/10، 390) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کی جائیداد اس طرح مشترک ہو کہ دونوں کے حصے کی تعیین نہ ہو، اور دونوں کا راستہ بھی ایک ہو، دیکھئیے حدیث رقم ۴۷۰۸۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4706  
´شفعہ اور اس کے احکام کا بیان۔`
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4706]
اردو حاشہ:
سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔ (مسند احمد: 3/ 303، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: 3518) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہ راستے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: 4708) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ أعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: 4650)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4706