سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات -- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
20. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
باب: اس حدیث میں عطاء بن ابی رباح کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 4773
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ وَكَانَ أَوْثَقَ عَمَلٍ لِي فِي نَفْسِي , وَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا إِصْبَعَ صَاحِبِهِ فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ:" أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا".
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش العسرۃ ۱؎ (غزوہ تبوک) میں جہاد کیا، میرے خیال میں یہ میرا بہت اہم کام تھا، میرا ایک نوکر تھا، ایک شخص سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کی انگلی کاٹ کھائی، پھر پہلے نے اپنی انگلی کھینچی تو دوسرے آدمی کا دانت نکل کر گر پڑا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے اس کے دانت کی دیت نہیں دلوائی، اور فرمایا: کیا وہ اپنے ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑ دیتا کہ تو اسے چباتا رہے؟۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4770 (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: یہ اس آیت کریمہ: «الذين اتبعوه في ساعة العسرة» سے ماخوذ ہے اور یہ غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے، اس جنگ میں زاد سفر کی بے انتہا قلت تھی اسی لیے اسے ساعۃ العسرۃ کہا گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4773  
´اس حدیث میں عطاء بن ابی رباح کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش العسرۃ ۱؎ (غزوہ تبوک) میں جہاد کیا، میرے خیال میں یہ میرا بہت اہم کام تھا، میرا ایک نوکر تھا، ایک شخص سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کی انگلی کاٹ کھائی، پھر پہلے نے اپنی انگلی کھینچی تو دوسرے آدمی کا دانت نکل کر گر پڑا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے اس کے دانت کی دیت نہیں دلوائی، اور فرمایا: کیا وہ اپ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4773]
اردو حاشہ:
تنگی والا لشکر، اس سے مراد غزوۂ تبوک کا لشکر ہے کیونکہ یہ وقت تنگی کا تھا۔ موسم سخت گرم تھا۔ پھل اور فصلیں پک چکی تھیں۔ پچھلے پھل اور غلے ختم ہو چکے تھے۔ سفر بھی بہت لمبا تھا۔ دشمن بہت طاقت ور اور کثیر تھا۔ ایسے میں نکلنا بہت دشوار تھا۔ تبھی تو انھوں نے اس سفر کو اپنا سب سے افضل عمل قرار دیا ہے کیونکہ اجر مشقت کے حساب سے ملتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4584  
´ایک شخص دوسرے سے لڑے اور دوسرا اپنا دفاع کرے تو اس پر سزا نہ ہو گی۔`
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کر دیا، اور فرمایا: کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا: (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4584]
فوائد ومسائل:
حملہ آور کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا حق واجب ہے اور اس صورت میں حملہ آور کو اگر کو ئی چوٹ لگ جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4584