سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات -- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
39. بَابُ : دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ
باب: عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4822
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّهُ قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا فَقَتَلَتْهَا، وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ، أَوْ وَلِيدَةٌ وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ"، فَقَالَ: حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ أُغَرَّمُ مَنْ لَا شَرِبَ، وَلَا أَكَلْ، وَلَا نَطَقَ، وَلَا اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں جھگڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک مارا، اور کوئی ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ عورت مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی، چنانچہ وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: اس کے جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت ایک غرہ ہے یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی۔ اور (قاتل) عورت کی دیت اس کے کنبے کو لوگوں (عصبہ) سے دلائی اور اس عورت کا وارث اس کے بیٹوں اور دوسرے ورثاء کو قرار دیا، تو حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا تاوان کیسے ادا کروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، جو نہ بولا نہ چلایا، ایسا خون تو لغو ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کاہنوں کا بھائی ہے (یہ بات آپ نے اس کی اس قافیہ دار بات چیت کی وجہ سے جو اس نے کی)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 26 (6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/الدیات 21 (4576)، (تحفة الأشراف: 13320، 15308) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4822  
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں جھگڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک مارا، اور کوئی ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ عورت مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی، چنانچہ وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: اس کے جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت ایک غرہ ہے یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی۔ اور (قاتل) عورت کی دیت اس کے کنبے کو لوگوں (عصبہ) سے دلائی اور اس عورت کا وار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4822]
اردو حاشہ:
کاہن دور جاہلیت میں ہر بت کے ساتھ ایک کاہن بھی ہوتا تھا۔ لوگ علاج وغیرہ کے لیے بھی انھی سے رابطہ کرتے تھے۔ یہ بڑے چالاک وعیار لوگ ہوتے تھے۔ جنوں سے روابط رکھتے تھے۔ ذو معنیٰ کلام کیا کرتے تھے۔ پیش گوئیاں بھی کرتے تھے مگر بڑے محتاط انداز میں تاکہ پیش آمدہ حالات میں مشکل پیش نہ آئے۔ بڑی دلآویز کلام کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسجع فقرے بولتے تھے جن کو سن کر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت حمل بن مالک کو کاہن کہا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4822   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2639  
´ «جنین» (پیٹ کے بچے) کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچے کی دیت) میں ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ بولا: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا ہو نہ کھایا ہو، نہ چیخا ہو نہ چلایا ہو، ایسے کی دیت کو تو لغو مانا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو شاعروں جیسی بات کرتا ہے؟ پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی (دیت) ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2639]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنین سے مراد وہ بچہ ہے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو، پیدا نہ ہوا ہو۔

(2)
بعض اوقات حاملہ عورت کے پیٹ پرچوٹ لگ جائے تو اس سے بچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور وہ پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو کر مردہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے یہ بھی قتل شمار ہوتا ہے۔

(3)
ایسے بچے کا حکم عام مقتول کا نہیں، اس کی دیت بھی سو اونٹ نہیں بلکہ صرف ایک غلام یا لونڈی ہے، البتہ اگر اس کی ماں بھی اس چوٹ سے فوت ہو جائے تو اس عورت کی پوری دیت ہوگی۔

(4)
شرعی حکم کے مقابلے میں قبائلی رسم و رواج کی کوئی حیثیت نہیں۔

(5)
شاعروں والی باتوں سے یہی مراد ہے کہ جس طرح عام شاعر جھوٹ موٹ اور غیر سنجیدہ باتیں کرتے ہیں، ان کی عملی دنیا میں کوئی قیمت نہیں ہوتی، اسی طرح یہ باتیں بھی بے کار ہیں، ان کی وجہ سے قانون تبدیل نہیں ہوسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2639   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1002  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری پر پتھر دے مارا۔ اس پتھر سے وہ عورت اور اس کے پیٹ کا بچہ مر گیا تو اس کے وارث مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا جنین کے بدلے ایک لونڈی یا غلام ہے اور عورت کے بدلے قاتل کے وارثوں پر دیت عائد فرما دی اور اس کے خون بہا کا وارث اس کی اولاد کو بنایا اور ان وارثوں کو بھی جو ان کے ساتھ تھے۔ حمل بن نابغہ ھذلی نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم ایسے بچے کا بدلہ کیسے دیں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا اور نہ چیخا۔ اس طرح کا حکم تو قابل اعتبار نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے تو کاہنوں کی سی قافیہ بندی کی ہے۔ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور نسائی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کون شخص جنین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موقع پر حاضر تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حمل بن نابغہ کھڑا ہوا اور بیان کیا کہ میں اس وقت ان دو عورتوں کے درمیان تھا، جب ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا تھا۔ پھر مختصر حدیث کا ذکر کیا۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1002»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطب، باب الكهانة، حديث:5758، ومسلم، القسامة، باب دية الجنين، حديث:1681، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الديات، حديث:4572، والنسائي، القسامة، حديث:4822، 4832، وابن حبان (الإحسان): 7 /605، حديث:5989، والحاكم.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ (حا اور میم دونوں پر فتحہ ہے) حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی صحابی ہیں۔
أبونَضْلہ ان کی کنیت تھی اور بصرہ کے رہائشی تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1002   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1410  
´حمل (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جنين» (حمل) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہو جاتا ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے ۱؎، «جنين» (حمل گرا دینے) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1410]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کورد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی،
اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی مذمت کی،
اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،
رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے،
یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔

2؎:
یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1410