سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات -- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
40. بَابُ : صِفَةِ شِبْهِ الْعَمْدِ
باب: قتل شبہ عمد کی تشریح اور اس بات کا بیان کہ بچے کی اور شبہ عمد کی دیت کس پر ہو گی اور اس بابت مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4833
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى كُلِّ بَطْنٍ عُقُولَةً وَلَا يَحِلُّ لِمَوْلًى أَنْ يَتَوَلَّى مُسْلِمًا بِغَيْرِ إِذْنِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا: ہر قوم پر اس کی دیت ہے۔ اور کسی غلام کے لیے نہیں کہ وہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی مسلمان کو اپنا ولاء دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 4 (1507)، (تحفة الأشراف: 2823)، مسند احمد (3/321، 342) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اپنا مالک کہے اور اپنے کو اس کی طرف منسوب کرے، اور مرنے کے بعد اپنی ولاء کی وراثت اسی کے نام کر دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4833  
´قتل شبہ عمد کی تشریح اور اس بات کا بیان کہ بچے کی اور شبہ عمد کی دیت کس پر ہو گی اور اس بابت مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا: ہر قوم پر اس کی دیت ہے۔ اور کسی غلام کے لیے نہیں کہ وہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی مسلمان کو اپنا ولاء دے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4833]
اردو حاشہ:
(1) عاقلہ (یعنی نسبی رشتہ دار) پر دیت ادا کرنا لازم ہے۔
(2)عائد شدہ دیتیں یعنی قتل خطا اور شبہ عمد کی دیتیں قاتل کے خاندان کو بھرنا پڑیں گی۔ اور باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت صرف قاتل کے ذمے نہیں بلکہ پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔
(3) اجازت کے بغیر یہ قید ڈانٹ کے طور پر ہے ورنہ اجازت لے کر بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص نہ تو رشتہ بیچتا ہے، نہ ہبہ کرتا ہے کیونکہ رشتہ بیچنے اور ہبہ کرنے کی چیز نہیں۔ مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے مالک کو بھی اور ان کے مابین تعلق کو ولا کہتے ہیں جو نسبی رشتے کے بعد مضبوط رشتہ ہے جو موت سے بھی ختم نہیں ہوتا حتیٰ کہ نسبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص بھی ایسے معظم رشتے کو بدلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بابت فرمایا: [الولاءُ لُحمةٌ كلُحمةِ النَّسَبِ لا يُباعُ ولا يُوهَبُ] ولا بھی نسبی رشتہ داری کی طرح ہے، یہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کی جا سکتی ہے۔ (المستدرك للحاکم: 4/ 341) مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اپنے آزاد کردہ غلام کو اجازت دے بھی دے تو بھی یہ تعلق ولا کسی دوسرے مسلمان کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی مسلمان کو لائق ہی ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4833