صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
3. بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ:
باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 252
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الْغُسْلِ، فَقَالَ: يَكْفِيكَ صَاعٌ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ:" كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا وَخَيْرٌ مِنْكَ"، ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انہوں نے کہا ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد (جناب زین العابدین) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔ (نوٹ: صاع کے اندر 2.488 کلو گرام ہوتا ہے۔)
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 252  
´ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الْغُسْلِ، فَقَالَ: يَكْفِيكَ صَاعٌ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ: " كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا وَخَيْرٌ مِنْكَ "، ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ . . . .»
. . . زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انہوں نے کہا ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد (جناب زین العابدین) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پھر جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔ (نوٹ: صاع کے اندر 2.488 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ:: 252]

تشریح:
وہ بولنے والے شخص حسن بن محمد بن حنفیہ تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان کو سختی سے سمجھایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف فضول اعتراض کرنے والوں کو سختی سے سمجھانا چاہئیے اور حدیث کے مقابلہ پر رائے قیاس تاویل سے کام لینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
«والحنفية كانت زوجة على تزوجها بعد فاطمة فولدت لها محمدا فاشتهربالنسبة اليها .» [فتح الباري]
یعنی حنفیہ نامی عورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کے نکا ح میں آئیں جن کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 252   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:252  
252. حضرت ابوجعفر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے والد گرامی، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس تھے جبکہ ان کے ہاں اور لوگ بھی تھے۔ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ تجھے ایک صاع کافی ہے۔ اس پر انہی لوگوں میں سے کسی نے کہا: مجھے تو کافی نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: اتنا پانی تو اس ذات گرامی کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال بھی تجھ سے زیادہ تھے اور وہ خود بھی تجھ سے بہتر تھے۔ پھر حضرت جابر ؓ نے ایک کپڑے میں ہماری امامت کرائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:252]
حدیث حاشیہ:

روایت میں ابو جعفر سے مراد حضرت باقر ہیں جن کا نام محمد بن حسین بن علی بن ابی طالبؒ ہے۔
ان کے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین ہیں دراصل ان حضرات میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا تو انھوں نے حضرت جابر ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تحقیق کرنی چاہی سوال کرنے والے صرف حضرت باقر ہیں چونکہ تحقیق کی طلب سب حضرات کو تھی اس لیے سوال کی نسبت سب کی طرف کردی گئی ہے۔
جب حضرت جابر ؓ نے بتایا کہ غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا کہ اتنی سی مقدار غسل کے لیے ناکافی ہے۔
یہ بات کہنے والے حضرت محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حضرت حسن ہیں، چونکہ ان کا انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ تمھیں یہ مقدار کافی نہ ہوگی، شاید تمھارے سر میں بال زیادہ ہیں یا تم زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہو۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے لیے تو یہ مقدار کافی تھی، حالانکہ آپ کے سر مبارک پر بال بھی تم سے زیادہ تھے۔
پھر آپ ہر معاملے میں محتاط بھی بہت تھے، اس لیے کافی نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ تم پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہو۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف جھگڑنے والے کو سختی سے سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 475/1)

اس روایت کے مطابق حضرت ابو جعفر باقر نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے لیے پانی کی مقدار کے متعلق سوال کیا جس کا حضرت جابر ؓ نے جواب دے دیا کہ ایک صاع کافی ہے۔
حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا کہ مجھے کافی نہ ہو گا تو اس کا بھی جواب دیا۔
آگے حسن بن محمد بن حنفیہ کا غسل کی کیفیت کے بارے میں سوال آرہا ہے کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ تین چلو پانی لیتے اور انھیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے اس پر حسن بن محمد نے کہا میں تو بہت بالوں والا ہوں۔
حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔
(صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 256)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 252