صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا -- کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
28. بَابُ قَبُولِ الْهَدِيَّةِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکین کا ہدیہ قبول کر لینا۔
حدیث نمبر: 2618
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، وَايْمُ اللَّهِ مَا فِي الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ، فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا، فَفَضَلَتِ الْقَصْعَتَانِ، فَحَمَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ أَوْ كَمَا قَالَ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا کسی کے ساتھ کھانے کی بھی کوئی چیز ہے؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا (آٹا) تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیا۔ پھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان حال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بیچنے کے لیے ہیں۔ یا کسی کا عطیہ ہے یا آپ نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ فرمایا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی پھر وہ ذبح کی گئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم اللہ کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا۔ جو موجود تھے انہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا۔ پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ او کما قال۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2618  
2618. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2618]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی کسی کافر مشرک کا ہدیہ قبول کرنا یا اس سے کوئی چیز خریدناجائز ثابت ہوا اور آنحضرت ﷺ کا ایک عظیم معجزہ بھی ثابت ہوا کہ آپ کی دعاءسے وہ قلیل گوشت سب کے لیے کافی ہوگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2618   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2618  
2618. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2618]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک سے پوچھا:
تم یہ بکریاں بطور ہدیہ لائے ہو یا انہیں فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔
اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت کیوں کرتے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آ جاتا ہے اور اس میں طمع اور لالچ کے جذبات نہیں ہوتے، مسلمانوں کا قافلہ دیکھ کر ممکن ہے کہ مشرک کو خیال آئے، اس موقع پر کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہیے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ہدیہ لائے ہو یا فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔
(2)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں کوئی طمع تھی، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھے مشرکین کے ہدایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3057)
اس میں تطبیق یوں ہے کہ آپ ان مشرکین کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے ایمان کی توقع ہوتی تھی، اور جس ہدیے میں مشرکین سے دوستی بڑھانا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں۔
بہرحال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ کفار و مشرکین سے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حالات سازگار ہوں، سیاسی اور معاشرتی طور پر کوئی پیچیدگی نہ ہو، البتہ اس مشرک کا ہدیہ قبول کرنا منع ہے جو دوستی اور محبت کی بنا پر ہو جس سے محبت اور تعلقات بڑھانا مقصود ہو۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 284/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2618