سنن نسائي
كتاب قطع السارق -- کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
7. بَابُ : التَّرْغِيبِ فِي إِقَامَةِ الْحَدّ
باب: حد نافذ کرنے کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4908
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَدٌّ يُعْمَلُ فِي الْأَرْضِ خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا ثَلَاثِينَ صَبَاحًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک حد کا نافذ ہونا اہل زمین کے لیے تیس دن بارش ہونے سے بہتر ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 3 (2538)، (تحفة الأشراف: 14888) حم2/362، 302، 302 (حسن) لفظ ’’أربعین‘‘ کے ساتھ یہ حدیث حسن ہے، ابن ماجہ میں ’’أربعین صباحا‘‘ کا لفظ آیا ہے، اور اگلی حدیث میں اربعین لیلة کا لفظ آ رہا ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بارش عام طور پر رزق میں وسعت اور خوشحالی کا سبب ہوتی ہے، مگر حد کا نفاذ اس بابت زیادہ فائدہ مند ہے اس لیے کہ معاشرہ میں امن و امان کے قیام میں بہت ہی موثر چیز ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن بلفظ أربعين
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4908  
´حد نافذ کرنے کی ترغیب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک حد کا نافذ ہونا اہل زمین کے لیے تیس دن بارش ہونے سے بہتر ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4908]
اردو حاشہ:
(1) کچھ سزائیں حد کہلاتی ہیں اور کچھ  تعزیر۔ حد تو وہ سزا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہو جبکہ تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو قاضی اور جج یا کوئی بھی ذمہ دار شخص جرم کی نوعیت دیکھ کر مناسبت سے اس جرم کی روک تھام کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق دے سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تعزیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ البتہ حد اور تعزیر دونوں کے نفاذ کا مقصد لوگوں کو جرائم سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ سزائیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ مجرم کا حشر دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور جرم سے اجتناب کریں۔
(2) عام طور پر بارش ہر جگہ اور ہر علاقے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صحرائی علاقوں میں اس کی ضرورت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ عرب جو بہت بڑے صحرائی علاقے پر مشتمل ہے وہاں اس کی ضرورت مسلمہ ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی۔
(3) بہتر ہے کیونکہ حدود کا نفاذ معاشرے میں امن وامان اور سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے نیز لڑائی جھگڑے اور خون ریزی کو ختم کرتا ہے۔ بارش کا فائدہ وقتی ہے مگر حدود کا فائدہ دائمی اور مستقل ہے نیز بارش صرف دنیا میں مفید ہے جب کہ حدود کا نفاذ آخرت میں بھی مفید ہوگا۔ رزق کا کیا فائدہ اگر جان اور مال وعزت ہی محفوظ نہ ہو؟ بلکہ رزق کی کثرت بسا اوقات جان وعزت کے لیے خطرہ بن جاتی ہے جب معاشرے میں امن و امان نہ ہو۔ حدود انسان کے جان و مال اور عزت کو محفوظ کرنے کے لیے نسخہ کیمیا ہیں۔ تجربہ شرط ہے۔
(4) تیس دن کثرت مراد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے نیز یہ ایک فرضی بات ہے ورنہ مسلسل تیس دن بارش برستی رہے تو نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ البتہ پہاڑی علاقوں میں مسلسل بارش بھی مفید رہتی ہے یا وقفے وقفے سے مراد ہوگی، یعنی ضرورت کے مطابق پڑتی رہے۔ بارش کا خصوصی ذکر اس لیے فرمایا کہ بارش کے ساتھ ہی زمینی زندگی کی بقا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4908   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2538  
´حدود کے نفاذ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایک حد جو دنیا میں نافذ ہو، اہل زمین کے لیے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چالیس دن تک بارش ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2538]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
حدسے مراد خاص جرائم کی وہ سزائیں جواللہ کی طرف سے مقرر کردی گئی ہےمثلاً:
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا یا قتل کی سزا قصاص ہے۔
ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔
ان کے علاوہ دوسرے جرائم کی سزا تعزیر کہلاتی ہےاس میں قاضی کو رائے دخل ہے وہ جرم کی نوعیت کے مطابق مناسب سزادے سکتا ہے۔

(2)
حدود و تعزیر کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور اس جرم سے اجتناب کریں اس لیے حدود کے نفاذ سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے اور ملک میں انصاف اورامن ہرقسم کی برکات کا باعث ہے۔

(3)
برکات کو بارش سے تشبیہ دی گئی ہے جوعرب کے صحرائی علاقے میں بہت بڑی نعمت اور رحمت شمارہوتی ہے۔

(4)
مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف کہا ہے جبکہ شیخ البانی رحمة الله عليه نے دیگرشواہد کی بنا پر ان کو حسن کہا ہے۔ دیکھیے: (الصحیحة، رقم: 231)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2538