سنن نسائي
كتاب الإيمان وشرائعه -- کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
2. بَابُ : طَعْمِ الإِيمَانِ
باب: ایمان کے مزہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4990
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ وَطَعْمَهُ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ فِي اللَّهِ، وَأَنْ يَبْغُضَ فِي اللَّهِ، وَأَنْ تُوقَدَ نَارٌ عَظِيمَةٌ فَيَقَعَ فِيهَا أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس میں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس اور اس کا مزہ پائے گا، ایک یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں، دوسرے یہ کہ آدمی محبت کرے تو اللہ کے لیے اور نفرت کرے تو اللہ کے لیے، تیسرے یہ کہ اگر بڑی آگ بھڑکائی جائے تو اس میں گرنا اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 928)، مسند احمد (3/207، 278) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کسی روایت میں ایمان کی مٹھاس ہے اور کسی میں اسلام کی مٹھاس ایسی جگہوں میں ایمان اور اسلام دونوں کا معنی مطلب ایک ہے یعنی دین اسلام، اور جہاں دونوں لفظ ایک سیاق میں آئیں تو دونوں کا معنی الگ الگ ہوتا ہے۔ (جیسے حدیث نمبر ۴۹۹۳ میں)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4990  
´ایمان کے مزہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس میں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس اور اس کا مزہ پائے گا، ایک یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں، دوسرے یہ کہ آدمی محبت کرے تو اللہ کے لیے اور نفرت کرے تو اللہ کے لیے، تیسرے یہ کہ اگر بڑی آگ بھڑکائی جائے تو اس میں گرنا اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4990]
اردو حاشہ:
(1) ایمان کا مزہ یہ تجرباتی چیز ہے کہ جب انسان ایمان میں کھب جائے تو اسے ایمان کے کاموں میں اسی طرح لذت محسوس ہوتی ہے،جیسے عوام الناس کو کھانے، پینے اور نازونعمت کی دیگر چیزوں میں لذت محسوس ہوتی ہے اور وہ ایمان کی وجہ سے اپنے آپ کو اس طرح خوش نصیب تصور کرتا ہے جس طر ح ما لدار شخص اپنے مال کی وجہ سے اپنے آپکوخوش قسمت ستجھتا ہے۔لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ اونچا مرتبہ ہے۔ اگر چہ نسبت خاک رابا عالم پاک!
(2) پیارے ہوں یعنی ان کو ہر چیز پر ترجیح دے مال اور حتیٰ کہ اپنی جان اور خواہش پر بھی۔نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے مقابلے میں ہر چیز کو رج کر دے گا حتی ٰ کہ اپنی ہواہش سے بھی دستبردار ہو جائے گا۔
(3) اللہ تعالی کے لیے ہو یعنی اس کے پیش نظر اپنا مفاد ونقصان نہ ہو بلکہ محبت اس لیے کہ اللہ تعالی اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پسند کرتے ہیں اور ناراضی اس لیے کہ اللہ اور اس کا رسول اس کو ناپسند کرتے ہیں۔
(4) بھڑکتی آگ یعنی شرک سے اسے شدید نفرت ہو جائے حتی کہ جان جانے کا خطرہ ہو تب بھی شرک نہ کر ے۔
(5) یہ تینوں کام بڑے مشکل ہیں۔ کوئی صاحب ایمان ہی ان پر کار بندرہ سکتا ہے۔اللهم اجعلنا منهم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4990