سنن نسائي
كتاب الإيمان وشرائعه -- کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
7. بَابُ : تَأْوِيلِ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا }
باب: «اعراب» ”(دیہاتیوں) نے کہا ہم ایمان لائے اے رسول! آپ کہہ دیجئیے تم لوگ ایمان نہیں لائے لیکن تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں“ کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4995
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ، قَالَ مَعْمَرٌ: وَأَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالًا وَلَمْ يُعْطِ رَجُلًا مِنْهُمْ شَيْئًا، قَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَعْطَيْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا وَلَمْ تُعْطِ فُلَانًا شَيْئًا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمٌ" , حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلَاثًا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَوْ مُسْلِمٌ"، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأُعْطِي رِجَالًا وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُمْ لَا أُعْطِيهِ شَيْئًا مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے؟ تو نبی آپ نے فرمایا: بلکہ وہ مسلم ہے ۱؎، سعد رضی اللہ عنہ نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ہر بار) کہتے رہے: وہ مسلم ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بعض لوگوں کو عطیہ دیتا ہوں اور بعض ایسے لوگوں کو محروم کر دیتا ہوں جو مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں، میں اسے اس اندیشے سے انہیں دیتا ہوں کہ کہیں وہ اپنے چہروں کے بل جہنم میں نہ ڈال دیئے جائیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 19 (27)، الزکاة 53 (1478)، صحیح مسلم/الإیمان 67 (236)، الزکاة 45 (236)، سنن ابی داود/السنة 16 (4683، 4685)، (تحفة الأشراف: 3891)، مسند احمد (1/182) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: چونکہ ایمان کی جگہ دل ہے اور وہ کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کسی کے بارے میں یقینی طور پر یہ دعویٰ کرنا کہ وہ صحیح معنوں میں مومن ہے جائز نہیں اس کو صرف اللہ عالم الغیوب ہی جانتا ہے، اور اسلام چونکہ ظاہری ارکان پر عمل کا نام ہے اس لیے کسی آدمی کو مسلم کہا جا سکتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو مومن کی بجائے مسلم کہنے کی تلقین کی۔ ۲؎: یعنی: جن کو نہیں دیتا ہوں ان کے بارے میں یہ یقین سے جانتا ہوں کہ دینے نہ دینے سے ان کے ایمان میں کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے، اور جن کو دیتا ہوں ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر (تالیف قلب کے طور پر) نہ دوں تو ایمان سے پھر کر جہنم میں جا سکتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت`
«. . . قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

لغوی توضیح:
«رَهْطًا» گروہ۔
«خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ» اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے آگ میں نہ ڈال دے (اس وجہ سے کہ وہ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے)۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 91   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´ایمان دل کا فعل ہے`
«. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .»
. . . یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

تشریح:
آیت کریمہ میں بنو اسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آ کر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کر رہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 27   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4995  
´ «اعراب» (دیہاتیوں) نے کہا ہم ایمان لائے اے رسول! آپ کہہ دیجئیے تم لوگ ایمان نہیں لائے لیکن تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں کی تفسیر۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے؟ تو نبی آپ نے فرمایا: بلکہ وہ مسلم ہے ۱؎، سعد رضی اللہ عنہ نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4995]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اوراسلام کی حقیقت الگ الگ ہے، یعنی اسلام ظاہری انقیاد واعمال کا نام ہے جبکہ ایمان یقین قلب اور تصدیق لسان کے ساتھ ساتھ کما حقہ ان کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان،اسلام سے اعلیٰ وارفع درجہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ظاہری انقیاد کے مقابلے میں ایقان قلب سے زیادہ ہوتا ہے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ حتمی طور پر کسی شخص کے کامل مومن ہونے کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرنی چاہیے جب تک اس پر شارع علیہ السلام کی طرف سے واضح نص نہ ہو۔
(3) اس حدیث سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی صریح طور پر رد ہوتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف زبان سے ایمان کا اقرار کرنے سے انسان جنت میں چلا جائے گا،عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
(4) شرعی حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ سرکاری مال میں اپنی صوابدید کے مطابق تصرف کرے، کسی کو دے کسی نہ دے اور کسی کو کم دے کسی کو زیادہ دے، نیز ظاہرا اہم آدمی کو چھوڑ دے، اس کی نسبت غیر اہم کو دے دے۔ شرعی مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے، خواہ رعایا اورعوام الناس پر یہ معاملہ مخفی ہی ہو۔
(5) حاکم کے ہاں سفارش کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ سفارش جائز ہو۔ اسی طرح مقام ومرتبے کے لحاظ سے کم تر شخص،اپنے سے برتر شخص کو مشورہ دے سکتا ہے، تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو، نیز کسی کے روبرو کہنے کے بجائے تنہائی میں ہو، زیادہ مؤثر ہوتی ہے الا یہ کہ حالات کا تقاضا علانیہ بات کرت کا ہو۔
(6) (بلکہ وہ) مسلمان ہے یعنی تم کسی شخص کی ظاہری حالت ہی کو دیکھتے ہو، لہذا تم ظاہر کی گواہی دو۔ باطن کی اللہ جانے۔بعض نےمعنی کیے ہیں بلکہ مسلمان کہو یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مومن نہ کہو بلکہ یوں کہووہ مومن یامسلمان ہے۔ اس صورت میں او عاطفہ ہوگا اور اسے عطف تلقینی کہتے ہیں کہ تم یہ بھی کہو۔ تینوں معانی ٹھیک ہیں۔
(7) خوف سے اس کا تعلق شروع جملہ کے ساتھ ہے، یعنی میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کا ایمان ابھی کمزور ہے۔ خطرہ ہے کہ مرتد نہ جائیں اور مرتد اوندھے منہ آگ میں گرنے کے مترادف ہے جبکہ پختہ ایمان والے شخص کے بارےمیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا،لہذا کبھی اس کو نہیں بھی دیتا تووہ محسوس نہیں کرتا ہے۔ مومن کو مال کی طمع نہیں ہوتی۔مل گیا خیر،نہ ملا تب بھی خیر۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4995   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4683  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا مسلم ہے سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: یا مسلم ہے پھر آپ نے فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4683]
فوائد ومسائل:
1: ایمان اور اسلام اگرچہ آپس میں لازم وملزوم ہیں، مگر ایمان اعضائے باطن وظاہر کے اعمال (تصدیق عمل قلب ہے اور نماز، حج، زکوۃ وغیرہ تمام اعمال صالحہ اعضائے ظاہر کے عمل ہیں) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری افعال سے۔
اس لیے ہم ظاہری اعمال کی روشنی میں کسی کو صاحب اسلام تو کہہ سکتے ہیں، لیکن صاحب ایمان ہونے کا دعوی درست نہیں۔
یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اعضائے ظاہری کے ان اعمال کے ساتھ تصدیق بالقلب کی حالت ہے۔

2: اسلام قبول کرنے والے نو مسلم لوگوں کو اسلام میں راسخ اور مطئمن کرنے کے لئے ماوی تعاون دینا ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کے شرعی اعمال کی روح میں اتر جائیں۔
ایسے لوگوں کو اصطلاحًا (مولفةالقلوب) كہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4683