سنن نسائي
كتاب الإيمان وشرائعه -- کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
19. بَابُ : عَلامَةُ الإِيمَانِ
باب: ایمان کی نشانی۔
حدیث نمبر: 5019
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وَأَنْبَأَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 7 (13)، صحیح مسلم/الإیمان 17 (45)، سنن الترمذی/الزہد 124 (القیامة 59) (2515)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (66)، (تحفة الأشراف: 1239)، مسند احمد (3/176، 272، 278، سنن الدارمی/الرقاق 29 (2782)، ویأتي عند المؤلف برقم: 5042 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 14  
´محبت رسول ہی سے ایمان کی اول و آخر تکمیل ہوتی ہے`
«. . . أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 14]

تشریح:
پچھلے ابواب میں «من الايمان» کا جملہ مقدم تھا اور یہاں ایمان پر «حب الرسول» کو مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں ادب مقصود ہے اور یہ بتلانا کہ محبت رسول ہی سے ایمان کی اول و آخر تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ہے تو ایمان ہے، یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ اس سے بھی ایمان کی کمی و بیشی پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ و خصائل حمیدہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ایمان کی حلفیہ نفی فرمائی ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس کے والد یا اولاد کی محبت غالب ہو۔ روایت میں لفظ «والد» کو اس لیے مقدم کیا گیا کہ اولاد سے زیادہ والدین کا حق ہے اور لفظ «والد» میں ماں بھی داخل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 14   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5019  
´ایمان کی نشانی۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5019]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سےیہ معلوم ہوا کہ ایسا کرنے والا شخص متواضع ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی نیکی اور اچھائی کے وہی جذبات واحساسات رکھتا ہو جو وہ اپنے لیے رکھتا ہےاور اپنے مسلمان بھائی کےلیے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہو جواپنےلیے کرتا ہے تو یہ عمل اور جذبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کرنے والا شخص نہ متکبر ہے اور نہ کینہ پرورہی۔ ایسے شخص کے دل میں کسی کے لیے نہ حسد اور بغض کی بیماریاں پل رہی ہوتی ہیں اور نہ اس کے دل میں کسی قسم کا کوئی کھوٹ اور منفی جذبہ ہی ہوتا ہے۔ یہ شخص تمام مذموم اور گھٹیا خصائل سے کوسوں دور اور خصائل حمیدہ کا پیکر ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اخلاق انتہائی کریمانہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی صفات جلیلہ کاحامل دل عطا فرمائے۔ آمین.
(2) وہی چیز یعنی اس جیسی کیونکہ وہی چیزتو ہر وقت نہیں دی جا سکتی اور ٹہ یہ ممکن ہے۔
(3) سابقہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوایمان کی نشانی بتلایا گیا تھا اور یہاں خلوص اور خیر خواہی کو۔گویا یہ دونوں نشانیاں ہیں۔ آگے مزید بھی آ رہی ہیں۔ ان میں کوئی تناقض نہیں۔ یہ سب ایمان کے ثمرات ہیں، نیز یاد رہے کہ کمال ایمان کے لیے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5019