سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
10. بَابُ : الذُّؤَابَةِ
باب: سر پر چوٹی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5067
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ:" كَيْفَ تَأْمُرُونِّي أَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ بَعْدَ مَا قَرَأْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، وَإِنَّ زَيْدًا مَعَ الْغِلْمَانِ لَهُ ذُؤَابَتَانِ".
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ مجھ سے زید بن ثابت کی قرأت کے مطابق پڑھنے کو کہتے ہو ۱؎، اس کے بعد کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر سے زائد کئی سورتیں سن چکا ہوں، اس وقت زید بچوں کے ساتھ تھے، ان کی دو چوٹیاں تھیں؟۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9257)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل القرآن 8 (5000)، صحیح مسلم/الفضائل 22 (2462)، مسند احمد (1/389، 405، 411، 442) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا ہے کہ آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے مصحف کے مطابق قرآن پڑھا کریں کیونکہ آپ کے مصحف اور اس میں فرق ہے، تب انہوں نے مصحف عثمانی کے جمع کرنے والے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات کہی، آپ کی نظر اس بات پر نہیں گئی کہ عام صحابہ نے مصحف عثمانی ہی پر اجماع کیا، بہرحال بتصریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سات قراءتوں پر نازل ہوا، ابن مسعود صحابی رسول تھے، اور ان کو اپنے اوپر اعتماد تھا، لیکن مصحف عثمانی پر اجماع کے بعد اس کے مطابق پڑھنے پر اجماع امت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5067  
´سر پر چوٹی رکھنے کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ مجھ سے زید بن ثابت کی قرأت کے مطابق پڑھنے کو کہتے ہو ۱؎، اس کے بعد کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر سے زائد کئی سورتیں سن چکا ہوں، اس وقت زید بچوں کے ساتھ تھے، ان کی دو چوٹیاں تھیں؟۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5067]
اردو حاشہ:
بچوں کے بال قابو رکھنے کے لیے ان کی مینڈھیاں بنا دی جاتی تھیں تاکہ کھیل کود میں بال خراب نہ ہوں۔ جب بچہ سمجھ دار ہوجاتا تھا تو مینڈھیوں کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ مقصد یہ ہے کہ وہ بچے تھے۔ حدیث سے مینڈھیوں کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5067