سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن -- کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
23. بَابُ : الْمُسْتَوْصِلَةِ
باب: بال جوڑوانے والی عورت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5101
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ مَسْرُوقٍ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ زَعْرَاءُ أَيَصْلُحُ أَنْ أَصِلَ فِي شَعْرِي؟ فَقَالَ: لَا، قَالَتْ: أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے سر پر بال بہت کم ہیں، کیا میرے لیے صحیح ہو گا کہ میں اپنے بال میں کچھ بال جوڑ لوں؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا کتاب اللہ (قرآن) میں ہے؟ کہا: نہیں، بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ اور اسے کتاب اللہ (قرآن) میں بھی پاتا ہوں …، اور پھر آگے حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9584)، مسند احمد (1/415) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5101  
´بال جوڑوانے والی عورت کا بیان۔`
مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: میرے سر پر بال بہت کم ہیں، کیا میرے لیے صحیح ہو گا کہ میں اپنے بال میں کچھ بال جوڑ لوں؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا کتاب اللہ (قرآن) میں ہے؟ کہا: نہیں، بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ اور اسے کتاب اللہ (قرآن) میں بھی پاتا ہوں …، اور پھر آگے حدیث بیان کی۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5101]
اردو حاشہ:
(1) کتاب اللہ میں پاتا ہوں یعنی انہوں نے قرآن کی اس عمومی دلیل ﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾ کے پیش نظر جعلی بال نہ لگانے کو قرآن کا حکم قرار دیا کیونکہ آپ کی بات کو ماننا قرآن کاحکم ہے۔ لیکن اپنے اجتہاد سے مستنبط کیے گئے مسائل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف یارسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: قیاسی مسائل کی بابت کہنا کہ یہ اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہے، یہ درست نہیں، اس لیے اس سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) یہ حدیث مفصلاً صحیح مسلم میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے بالوں والی عورت بھی جعلی بال نہیں لگا سکتی کیونکہ اس میں جعل سازی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے، نیز تھوڑے زیادہ کی کوئی حدبندی نہیں۔ اس طرح تو ہر عورت کہہ سکتی ہے کہ میرے بال تھوڑے ہیں۔ جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہے وہ ناجائزاور حرام ہی ہے اس میں قطعاً دوسری کوئی رائے نہیں۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5101